کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 81
سب کے درمیان برابر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سو ا کسی کی اطاعت نہ کریں، کسی کو یہ حیثیت نہ دیں کہ اس کے اقوال کو آپ کی نصوص کی طرح سمجھیں اور ایک دوسرے کو ارباباً من دون اللہ نہ بنائیں“ اگر اس پر ان کا کلمہ متفق ہوجائے، اللہ اور رسول کی طرف دعوت دینے والے کے لیے سب مطیع ومنقاد ہوجائیں اور سب کے سب سنتِ نبویہ اور آثارِ صحابہ کو حکم تسلیم کرلیں تو اختلاف کم ہوجائے، اگرچہ اختلاف سے زمین بالکل خالی نہیں ہوسکتی، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ سب سے کم اختلاف اہل سنت وحدیث میں ہے۔ پورے خطۂ ارضی پر کوئی گروہ اُن سے زیادہ اتفاق اور کم اختلاف والا نہیں ہے۔ چونکہ اُن کی بنیاد اسی اصول پر ہے جس قدر کوئی فرقہ حدیث سے دُور ہوگا ان کا آپس میں اختلاف اسی قدر سخت اور زیادہ ہوگا۔ سوجس شخص نے حق کو رد کیااس پر اس کا عمل خلط ملط ہوگیا اور راہِ حق وصواب ملتبس ہوگیا، وُہ نہیں جانتا کہ اسے کدھر جانا ہے، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ“(جب اُن کے پاس حق آیا تو انہوں نے اُسے جھٹلایا، پس اب وُہ ڈگمگارہے ہیں) [1]
مزید فرماتے ہیں :
ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق پر مسائل دینیہ میں سے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں دلیل کے ساتھ حق کی معرفت فرض قرار ی ہے ہم تو صرف اسی چیز کا انکار کرتے ہیں جس کا ائمہ اُن سے قبل صحابہ کرام اور تابعین عظام نے انکار کیا اور جو خیرون القرون گزرجانے کے بعد، چوتھی صدی ہجری میں، جو زبان ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر مذموم ہے، ا سلام میں ظاہر ہوئی کہ ایک آدمی کو متعین کرنا اس کے فتاویٰ کو بمنزلہ نصوص شرعیہ کے، بلکہ ان سے بھی مقدم کرنا، اس کے اقوال کو رسول اللہ کے بعد جمیع علماء امت کے اقوال پر ترجیح دینا اور کتاب اللہ‘ سنت رسول اللہ اور
[1] درمناقب احمد”ابن جوزی ص ۱۹۲۔