کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 80
شاید اسی وجہ سے امام احمد بن حنبل خالص کتاب وسنت کی اتباع پر بڑے حریص تھے، فروعات اور رائے پر مشتمل کتابیں تصنیف کرنے کو اچھا نہیں جانتے تھے [1] اس سے ڈرتے ہوئے کہ لوگ انہیں کتاب وسنت پر ترجیح دیں گے جیساکہ تمام مقلدین نے کیا ہے وُہ اختلاف کی صورت میں اپنے مذہب کو کتاب وسنت پر ترجیح دیتے اور ان کے لیے معیار قرار دیتے ہیں جیسے کہ ابھی کرخی کا قول گزرا ہے حالانکہ کتاب وسنت کی اتباع واجب ہے، جیسا کہ گذشتہ دلائل کا تقاضا ہے، اقوال ائمہ بھی ان پر اسی کو واجب قرار دیتے ہیں اور انہیں ان مذاہب کے ساتھ ضم ہوجانا ضروری ہے جن کے ساتھ کتاب وسنت ہے۔ لیکن سخت افسوس ہےکہ وُہ آپس میں اختلاف وتنازع کا شکار ہوگئے، اسی لیے امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں” و انه من يَعش مِنْكُم بعدى فسيرى اخْتِلَافا كثيرا فَعَلَيْكُم بستني۔ “( جو شخص تم میں سے زندہ رہا وہ عنقریب بڑا اختلاف دیکھےگا، (اختلاف کی صورت میں ) تم میری سنت کو لازم پکڑنا۔ ”یہ اختلاف کرنے والوں کی مذمت اور اُن کے رستوں پر چلنے والوں کو تحذیر کی گئی ہے، اختلاف وتفریق تقلید اور مقلدین کے سبب بڑھا ہے جنہوں نے دین کو فرقوں میں اور اہلِ دین کو گروہوں میں بانٹ لیا ہے۔ ہر فرقہ اپنے متبوع امام کی مدد کرتا ہے، اس کی طرف دعوت دیتا ہے، اس کے مخالف کی مذمت کرتا ہے اور اُن کے قول پر عمل کاجائز نہیں سمجھتا، جیسے وُہ کوئی ان کے علاوہ دوسری ملت ہے، ان پر ردّ کدح کرتے ہیں اور کہتے ہیں کتبھم (ان کی کتابیں) کتبنا( ہماری کتابیں) وائتمھم“ (اُن کے امام) وائمتنا“( ہمارے امام ) و ”مذھبھم“( ان کا مذہب) ”مذھبنا“ ( اور ہمارا مذہب) حالانکہ نبی ایک ہے، قرآن ایک ہے اور خدا بھی ایک ہے، پس ان سب پر واجب ہے کہ وُہ اس کلمہ پر جمع ہوجائیں جو
[1] اخرجه الحاکم (۴/۵۵۴۔ ۵۵۵) وقال ”صحیح الاسناد“ووافقه وھو وان کان موقوفا فله حکم المرفوع لانه من الامر الغیبیة التی لاتقال بمجرد الرأی، لایما وقد رفعه بعض الرواۃ عندہ وصححه ایضا ۱۲ منہ