کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 79
نے حنفی کو شافعی عورت کے ساتھ شادی کرنے سے منع کیاہے، اور دوسرے نے اس کی اجازت دی تو یہ علت بیان کرتے ہوئے کہ اسے کتابیہ عورت سمجھ کر نکاح کرلیں۔ ( تنزیلاً لہا منزلۃ اہل الکتاب) گویا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب اُن کے لیے نہیں ہے۔ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ۔ “( اُن کی طرح نہ ہو جودلائل وبینات آنے کےبعد آپس میں متفرق ومختلف ہوگئے) اور فرمایا”فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا  كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ۔ “ امام ابن قیم اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں زُبر سے مراد کتب ہیں یعنی ہر فرقے نے اپنی الگ کتب تصنیف کرلیں، ان کو قبول کرتے، ان پر عمل کرتے اور انہیں کی طرف دعوت دیتے، دوسروں کی کتابوں کے علاوہ، جیسا کہ اب واقع ہے۔ میں کہتا ہوں شاید عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا اشارہ بھی انہیں کتابوں کی طرف سے ہے۔ عمر و بن قیس سکونی ان سے راوی ہیں، فرمایا، ”میں اپنے باپ کے ہمراہ ایک وفد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نکلا تو میں نے ایک آدمی کو سنا، وُہ لوگوں سے بیان کررہا تھا: ”علاماتِ قیامت میں سے ہے کہ اشرار بلند مرتبہ ہوں گے، اخیار ذلیل ہوں گے، کردار عمل ختم ہوجائے گا، باتیں زیادہ ہوں گی، ق وم میں ”مثناۃ“ پڑھی جائے گی اور اسے تبدیل کرنے یا اس کا انکار کرنے والاقوم میں کوئی نہیں ہوگا، پوچھا گیا، مثناۃ سے کیا مراد ہے، فرمایا، جو کچھ کتاب اللہ کے علاوہ لکھا جائے۔ “[1]