کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 78
”جب ہم سے ہمارے اور مخالف کے مذہب کے بارے میں سوال کیا جائے تو لازماً یہ جواب ہوگا کہ ہمارا مذہب صواب ہے اور اس میں خطا کا احتمال ہے اور مخالف کا مذہب خطاء ہےاور اس میں صواب کا احتمال ہے اور جب ہم سے ہمارے اور مخالفین کے معتقدات کے بارے میں وہ پُوچھا جائے تو لازماً ہم یہی کہیں گے کہ حق وُہ ہے جس پر ہم ہیں اور باطل وُہ ہے جس پر ہمارے مخالفین ہیں۔ “ حالانکہ یہ یا اس کے علاوہ ایسے ہی اقوال جن کا ہم نے ذکر نہیں کیاائمہ متبوعین میں سے کسی امام نے نہیں کہے، بلکہ وہ اپنے علم وتقوےٰ کے لحاظ سے اس سے بلند وبالا تھےکہ ایسے لغو اقوال ان سے سرزد ہوئے، یہ اقوال دو وجوہ کی بناء پر واضح طور پر باطل ہیں۔ اولاً: یہ کہ کتاب وسنت کی کئی نصوص کے خلاف ہیں جن میں حکم دیا گیا ہے کہ انسان علم کے بغیر کوئی بات نہ کرے جیسے فرمایا:”لا تقف مالیس لک بہ علم ( جس چیز کا تجھے علم نہیں ہے اس کے درپے نہ ہو) یہ معلوم ہوچکا ہے کہ حقیقی علم وہی ہے جو کتاب وسنت میں ہے۔ توان کے ذکر کردہ اقوال پر قرآن وسنت کی کونسی نص دلالت کرتی ہے۔ ثانیاً: یہ کہ انہیں تقلید کا دعویٰ ہے اور مقلد کی دلیل صرف امام کا قول ہوتا ہے جیسے اُن کی کتابوں میں معروف ہے تو ان کے ائمہ کے کلام میں ان اقوال کا کہاں ذکر ہے؟ حاشا کلا وہ اس سے بری ہیں۔ مقلدین میں اختلاف کی کثرت اور محدثین میں اس کی قلت! اس کو سمجھ لینے کے بعد صدیوں سے مقلدین کے مختلف گروہوں میں بدترین اختلاف وافتراق کے اسباب بھی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ جمہور مقلدین نے مخالفِ مذہب کے پیچھے نماز نہ ہونے یامکروہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے، بلکہ بعض
[1] الدر المختار ۱/۴۵ حاشیہ [2] تاریخ التشریع الاسلامی للخضری “ص ۲۳۲