کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 77
اور ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ علمِ حدیث وفقہ اپنی آخری شکل اختیار کرچکا ہے[1] یعنی اس میں نسخ وتاویل کی اب کوئی گنجائش نہیں رہی اور اپنے اس دعوےکو مؤکد ومحکم بنانے کے لیے ابوالحسن کرخی کا قول پیش کرتے ہیں”کل اٰیة تخالف ماعلیه اصحابنا فھی مؤولة اومنسوخة وکل حدیث کذٰلک فھو مؤول او منسوخ۔ [2] جو آیت ہمارےاصحاب مذہب کے خلاف ہے وہ مؤل ہے یا منسوخ۔ ایسے ہی اس قسم کی ہر حدیث منسوخ ہوگی یا اس کی تاویل کی جائے گی۔ اسی لیے آپ جوں ہی اُن کے سامنے کوئی آیت یا حدیث پیش کریں گے تو وہ فوراً اس کے رد کے لیے اپنے آپ کو تیار پائیں گے۔ بغیر اس امر پر غورکیے کہ اس آیت وحدیث کا مدلول کیا ہے اور کیا ان کا یہ فعل ان کے اپنے ہی مذہب کے خلاف تو نہیں ہے اور فوراً جواب دیں گے کہ مذہب مقدم ہے یا آپ کا علم؟ (گویا آیات واحادیث کی تاویل اور اُن کا نسخ بوجہ خلاف مذہب ہونے کے ان کے بناکردہ اصول وقواعد کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ ائمہ کے لیے تعصب اور ان کی تقلید فرض قرار دینے میں اہل مذہب کی ان سے مخالفت! پس ان اہل مذاہب نے اپنے ائمہ کے وصایا کےخلاف اختراع کردہ قواعد سے اپنے اور تمام مطلوبہ علوم کے سینوں میں تقلید کے لیے جگہ بنالی ہے اور اُن کی وجہ سے ہی وُہ طالبان ِ علم کو فقہ کتاب وسنت سے روکتے ہیں، اُن کےعرف میں فقہ صرف علماء کی کتابوں میں واقع اُن کے اقوال کوسمجھنے کا نام ہے، پھر اس پر بس نہیں کی بلکہ مذہبی تعصب کی دعوت بھی دی ہے، جیسے ان میں سے بعض کا قول ہے:
[1] شامی ۱/۵۵۱