کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 76
کہ ہم ( بزعم خویش) آئمہ کے متبعین کے احوال اور ان کی ائمہ کے اقوال کی اتباع پر نظر ڈالیں گے کہ وُہ کہاں تک صحیح ہے۔ جمہوہر شیوخ مقلدین مدتوں سے ایک بالکل عجیب وغریب موقف اختیار کیے ہوئے ہیں، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ احکامِ شرع کے لیے کتاب سنت کی طرف سے رجوع کرنے کے اہل نہیں ہیں لہذا ان پر تقلید واجب ہے اور وہ یہ بھی نہیں پسند کرتے کہ ان کی نسبت جہل کی طرف کی جائے، حالانکہ اُن کے علماء کے اقوال کا تقاضا یہی ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے کئی اصولوں میں اُن کی تقلید سے خارج ہیں اور انہوں نے اپنے قواعد بنالیے ہیں، حالانکہ جب و ہ تقلید کا دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے خصوصاً جب اُن کے یہ قواعد کتاب وسنت کے بھی منافی ومخالف ہوں، ائمہ کرام کے مذکورہ بالااوامر کے خلاف انہوں نے محض اپنے اوپر فروع میں بھی ان کی تقلید واجب کرنے کے لیے اپنے پاس سے وہ قواعد اختراع کیے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ ”مجتہد مطلق کا وجود ختم ہوگیا ہے۔ “ اور ان کے ہاں یہ مشہور ہے کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد سے اجتہاد کا دروازہ بند ہے۔ ایسے ہی ابن عابدین شامی نے اس قول کے حاشیہ پر ذکر کیا ہے۔ [1]اپنے اس خیال کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو کتاب وسنت میں تفقہ پیدا کرنے سے روکتے اور ان پر ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید کوواجب قرار دیتے ہیں جیسے ”الجوہرہ“ میں ہے۔ وواجب تقلید حبرمنھم کذا حکی القوم بلفظ بفہم (اور ان میں سے کسی امام کی تقلید واجب ہے جیسےقوم کے الفاظ سے یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے)
[1] اعلام ج۲ ص۳۴۴