کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 75
عوام میں سے سمجھدار لوگوں کے لیے بھی حجت کو سمجھنا آسان ہوتا ہے، جبکہ ان تک پہنچنے والی نص واضح ہو، مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ” وَالتَّيَمُّمُ ضَرْبَۃ واحدۃ، لِلْوَجْهِ والکفین‘‘، (کہ تیمم چہرے اور ہاتھوں کے لیے ایک ضرب ہے) کے بارے میں کون گمان کرتا ہے کہ عوا م میں سے اچھے دماغ والے لوگ اس سے حجت ودلیل نہیں سمجھ سکتے، بلکہ اس سے تو عام دماغ کا آدمی بھی دلیل پکڑ سکتا ہے، اسی لیے حق یہ ہے کہ یُوں کہا جائے کہ جو شخص معرفت دلیل سے عاجز ہے اسی پر تقلید واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اُس کی وسعت وطاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا۔ اس کی تائید میں ابنِ قیم کا کلام بھی اس بحث کے آخر میں آرہا ہے جیسے کہ ایک عام شخص بھی بعض اوقات بعض مسائل میں تقلید پر مجبور ہوجاتا ہے، بلکہ جب وہ اس مسئلہ میں اللہ ورسول کی طرف سے کوئی نص معلوم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور ا س میں اپنے سے زیادہ صاحب علم کے قول کے سوا اسے کچھ نہ مل سکے تو مجبوراً اس کی تقلید کرے گا، جیساکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بعض مسائل میں کیا ہے، اسی لیے امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”یہ اہل علم کا عمل ہے اور واجب ہے، تقلید مجبور ومضطر کے لیے مباح ہے لیکن جو شخص باوجود طاقت وقدرت کے کتاب وسنت اور اقوالِ صحابہ سے حجت پکڑنے کی بجائے تقلید کرے وُہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی باوجود قدرت کے ذبیحہ چھوڑ کر مردار کھائے۔ پس اصل یہ ہے کہ کسی کا قول بلادلیل نہ لیا جائےمگر مقلدین نے حالتِ ضرورت کو اپنا رأس المال بنالیاہے‘‘ [1] اہل مذاہب کا اجتہاد سے تصادم اور ہر ایک پر تقلید کو واجب قراردینا ان توضیحات کے بعد ہم اپنے سابقہ وعدے کی طرف آتے ہیں ہم نے کہا تھا