کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 74
۲۔ وہ عامی جاہل کا وظیفہ ہے تو ا س سےوُہ عالم نکل گیا جسے دلائل کی معرفت پر قدرت ہے اور اس کا وظیفہ تقلید نہیں بلکہ اجتہاد ہے اب ہم ایک دوسرے لہر کی تشریح وتوضیح کرتے ہیں، ابن عبدالبر کی جو بحث پیچھے گزرچکی ہےاس کے بعد وہ فرماتے ہیں:
”یہ سب خواص کے لیے ہے، عوام کے لیے جب کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو انہیں اپنے علماء کی تقلید کے بغیر کوئی چاہ کا ر نہیں ہے۔ چونکہ عامۃ الناس پر مواقع حجت ظاہر نہیں ہوتے اور وہ عدم فہم کی وجہ سے اس کے علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ چونکہ علم کے کئی درجے ہیں، نچلا درجہ حاصل کیے بغیراوپر والے کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہی چیز عامۃ الناس اور طلب ِ حجت کے درمیان حائل ہے واللہ اعلم
علماء کا اس میں اختلاف نہیں ہے۔ عامۃ الناس پر اپنے علماء کی تقلید ضروری ہے اللہ کے اس فرمان میں وہی مراد ہیں۔ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْر الخ اور اس پر علماء کا اجماع ہے کہ اندھے آدمی کے لیے ضروری ہے کہ جب اس پر جہت قبلہ کا پتہ لگانا مشکل ہوجائے تو ایسے شخص کی تقلید کرے جس کی قبلہ کے بارے میں معرفت پر اسے وثوق واعتماد ہے۔ پس ایسے ہی وہ شخص جس کے پاس علم نہیں ہے یا وہ آنکھ نہیں ہے جس سے وُہ دین کی معرفت حاصل کرسکے، اس کے لیے اس کےسوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے۔ ایسے ہی علماء کا اس میں بھی اختلاف نہیں ہے کہ عام آدمی کو فتویٰ دینا ناجائز ہے۔ یہ اس کی ان چیزوں سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے جن سے حلت وحرمت کا پتہ لگانا اور علم کے بارے میں گفتگو کرنا جائز ہوتا ہے واللہ اعلم
میرا خیال ہے کہ عامی کے بارے میں مطلقاً کلام اور یہ کہ اس کے لیے تقلید کے بغیر چارہ نہیں ہے، ایک چیز سے خالی نہیں ہے۔ چونکہ جب آپ کو معلوم ہوگیا ہے کہ تقلید بغیر حجت کے کسی کے قول پر عمل کرنے کا نام ہے، توبسااوقات