کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 73
کتب میں مدون ہے۔ حالانکہ ان میں سے بعض آراء واحادیث نبویہ کی نصوص سے متصادم ہیں۔ “ خلاصہ یہ ہے کہ تقلید مذموم ہے، چونکہ وُہ جہالت ہے، علم نہیں ہے حقیقی علم کتاب وسنت کے علم اور ان میں فہم وبصیرت پیدا کرنے کا نام ہے۔ دلیل سمجھنے سےعاجز آدمی کےلیے تقلید کا جواز: کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ ہر شخص تو اس معنی میں عالم نہیں ہوسکتا (کہ وہ کتاب وسنت میں فہم پیدا کرلے) تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے مگر اس میں نزاع کس کا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے” فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ“ ( اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھو) نیز فرمایا فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا۔ “(کسی خبردار سےپوچھ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا جنہوں نے بےعلمی میں فتویٰ دیا تھا” أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ“( جب انہیں علم نہ تھا تو انہوں نے پوچھ کیوں نہ لیا۔ (علم سے) عاجز کی شفا سوال ہے) بحث مستطیع اور غیر مستطیع کی تحدید کے بارے میں نہیں تھی بلکہ سیاقِ کلام اس پر دال ہے کہ بحث تو صرف ان خواص پر منطبق ہوتی ہے جو ان کے ظن میں اہل علم ہیں، ان کے لیے تمام مسائل کی یا کم از کم بعض کی دلیل کے ساتھ معرفت ممکن ہے، درحقیقت وُہ مذہب امام کے اقوال کے علماء ہیں اور کتاب وسنت سے بے بہرہ، سواس سوال کا یہ اصلا محل نہیں ہے خصوصاً جبکہ میں اس فصل کے شروع میں ذکر کرچکا ہوں کہ اصولی نص سے ہمیں دو اہم امور مستفاد ہوتے ہیں۔ ۱۔ تقلید کوئی نافع علم نہیں ہے، اس بات کا بیان ضرورت کے مطابق ہوگیا ہے، وُہ ان شاء اللہ کافی ہوگا۔
[1] اس کی سند حسن ہے۔ ملاحظہ ہو تخریج الترغیب ۴۶۸ [2] ۲/۲۳