کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 72
اور فرمایا:”إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ “ رواہ مسلم۔
(ابن آدم کی موت کے بعد اس کے تمام اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے صرف تین قسم کے اعمال جاری رہتے ہیں۔ صدقہ جاریہ، علم نافع اور اولاد صالح جو اُس کے لیےدعا کرے(مسلم)
نیز فرمایا: ليس منا من لم يجل كبيرنا ويرحم صغيرنا، ويعرف لعالمناحقہ۔ “( رواہ الحاکم) [1] جو بڑوں کی عزت نہ کرے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وُہ ہم میں سے نہیں ہے وغیرہ آیات واحادیث کثیرہ جو علم اور اہل علم کی فضیلت میں آئی ہے۔ حافظ ابن البر نے اپنی کتاب ”جامع بیان العلم“ میں اس حقیقت کی وضاحت کے لیے ایک خاص باب منعقد کیا ہے، و ہ فرماتے ہیں :”علم کے اصول اور اس کی حقیقت کا بیان اور جس چیز پر علم وفقہ کا نام مطلقاً بولا جاتا ہے۔ “
علامہ فلانی رحمہ اللہ علیہ نے بھی ’’ایقاظ ھم اولی الابصار“ میں ان کی پیروی کی ہے[2] (یہی باب منعقد کیاہے) پھر دونوں نے اس باب کے تحت اس کی وضاحت کرتےہوئے بعض احادیث وآثار ذکر کیے ہیں، علامہ فلانی نے اس بحث کو ختم کرتے ہوئے لکھا ہے :
”پس یہ احادیث وآثار صراحۃً اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ لفظ علم مطلقاً علوم ِ کتاب وسنت اور اجماع پر بولا جاتا ہےیا اس سے قیاس پر جو نص نہ ملنے کی صورت میں ان اصول پر کیاگیا ہے ان کے نزدیک جو اسے جائز سمجھتے ہیں نہ کہ اہل تقلید وعصبیت کے خیال کے مطابق علم ِ صرف اسی میں منحصر ہے جو مذہبی آراء پر مشتمل
[1] اس کی سند صحیح ہے، ملاحظہ ہو مشکوٰۃ مع تخریج (البانی ص۲۱۳)