کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 71
یعنی ” حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، (لفظ البخاری برائیھم) فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا۔ “۔ (حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ کسی عالم کو نہیں چھوڑے گا تو لوگ جہلاء کو سردار بنائیں گے، اُن سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم (بخاری میں ہے اپنی رائے سے) کے فتوے دیں گے، سو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ مقلدین کا خیال ہے کہ اس سے مراد وُہ عامۃ الناس ہیں جو تقلیدی فقہ کا علم اور مذاہب ائمہ کی معرفت نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وصف میں وُہ مقلدین داخل ہیں جو حقیقی علم (کتاب وسنت) کی بجائے اجتہادات ائمہ کی معرفت اور بغیر بصیرت کے ان کی تقلید پر قانع ہیں۔ جیسا کہ ابنِ عبدالبر اندلسی کے کلام میں اس طرف اشارہ ہوچکا ہے۔ علماء کرام رحمہ اللہ کا اس حدیث سے اس بات پر استدلال کرنا کہ ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی مجتہد بھی نہ ہو، جیسا کہ فتح الباری ۱۲/۲۴۴ میں بالتفصیل مذکور ہے، ا ن کا اشارہ اس طرف ہے کہ علماء سے مراد مجتہدین ہیں اور جہال سے مقلدین۔
اصل میں اس جہل کا راز یہ ہے کہ وُہ حقیقت ِ علم سے ناآشناہیں اور انہیں معلوم نہیں ہے کہ وُہ عالم کون ہے جو ان آیات واحادیث میں مذکور ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ( کیا وہ لوگ جو عالم ہیں وہ ان کے ساتھ برابر ہیں جو عالم نہیں ہیں)نیز ” يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ۔ “(اللہ تم میں سے ایمانداروں کے درجات بلندکرتا ہے اور ان لوگوں کے جو علم دیے گئے) نبی علیہ السلام نے فرمایا: فضل العالم على العابدِ، كَفَضْلي علَى أدْنَاكُمْ۔ “( عالم کو اسی طرح عابد پر فضیلت حاصل ہے جس طرح مجھے تم پر [1](ترمذی)
[1] بخاری ومسلم