کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 70
اوراقوال ِ ائمہ سے مستفید ہونے کے بجائے جہالت کے دبیز پردوں میں دبی ہوئی ہے جن کا منشا یہ ہے کہ تقلید مذموم ہے، وُہ کوئی علم نہیں اورعلم صرف قال اللہ اور قال الرسول اللہ میں منحصر ہے۔ اسی لیے ان میں کسی کے دل میں یہ بات کھٹکتی بھی نہیں ہے کہ کتاب وسنت میں جو علم ممدوح ہے وہی ہے جو اُن کے عقائد واحکام کے بارے میں آیا ہے اور جن علماء کی کتاب وسنت میں مدح وستائش کی گئی ہے وہی علماء ہیں جوان میں آنے والے عقائد واحکام کے عارف ہیں نہ کہ ائمہ کے اقوال اور اُن کے اجتہادات کے عارفین ( بلکہ وہ اس کا الٹ سمجھتےہیں) اسی لیے آپ انہیں حیران وسرگردان دیکھیں گے، یہ تمیز بھی نہیں کرسکتے کہ کون کون سے اقوال واجتہادات کتاب وسنت کے موافق ہیں اور کون سے مخالف اسی طرح کبھی ان کے دل میں یہ بات مطلاقاً نہیں آتی جب وہ علامات قیامت کی احادیث میں یہ حدیث پڑھتے ہیں۔ یرفع فیھاالعلم، ویظھر فیھاالجھل۔ “ کہ علم اٹھ جائے گا جہالت عام ہوجائے گی۔ کہ اس میں مقلد کا علم بھی داخل ہے جو عین جہل ہے چونکہ گذشتہ سطور میں ائمہ کی تصریحات گزرچکی ہیں کہ مقلد کے پاس کوئی علم نہیں ہے، اسی طرح وُہ قطعاً اس حدیث کو متنبہ نہیں ہوتے۔ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ“ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے چھین لےگا لیکن علم علماء کے قبض کرنے سے قبض کرےگا[1] کہ اس سے کتاب وسنت کے علماء مراد ہیں بلکہ ہم تو مدت سے کئی لوگوں کو سن رہے ہیں کہ اس حدیث کو اپنے مشائخ تقلید میں سے کسی شیخ کی موت کی مناسبت سے ذکر کرتے رہتے ہیں اسی طرح حدیث کے باقی حصے کا بھی غلط مفہوم لیتے ہیں
[1] الرسالہ ص۴ رقم ۱۳۱، ۱۳۲ [2] ص ۳۹/۱۲۰ [3] ۵۰۸/۱۴۶۷۔ ۱۴۶۸