کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 69
ہیں کافی ہیں۔
علم صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرمودات کا نام ہے!
جب علماء کے نزدیک تقلید کی یہ حالت ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ جن لوگوں کو دلائل سے حق سمجھنے کی توفیق میسر ہے اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ فقہ میں کتاب وسنت کے علاوہ کسی چیز کی بات کریں چونکہ علم کے شایانِ شان یہی ہے کہ وہ صرف کتاب وسنت میں ہو نہ کہ آراء الرجال میں اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ ”الرسالة“ میں فرماتے ہیں۔
علماء پر واجب ہے کہ جہاں سے انہوں نے عِلم سیکھا ہے اسی کی بات کریں‘ علم کےبارے میں بعض لوگوں نے ایسا کلام کیا ہے کہ اگر وُہ خاموش رہتے تو اس سے بہتر اور سلامری کے زیادہ قریب تھا۔ ان شاء اللہ ![1]
دوسری جگہ فرمایا:
”کسی شخص کو ہرگز جائز نہیں کہ وُہ کسی چیز کی علت وحرمت کا فتویٰ دے مگر ازرُوئے علم اور علم کتاب وسنت یا اجماع وقیاس میں مہارت پیدا کرنے کا نام ہے [2]
ایک دوسری جگہ فرمایا:۔
اگر کسی نے بغیر خبر لازم اور قیاس کے کوئی بات کہی تو وہ اس سے بھی زیادہ گناہ کے قریب ہوگی جس نے بغیر علم کے کہی، اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کو یہ حق نہیں دیا کہ وُہ علم کے بغیر کچھ کہے اور علم سے مراد کتاب، سنت ، اجماع، آثار اور وہُ قیاس ہے جو ان پر مرتب ہو[3]
سب سے بڑی مصیبت جس میں نہ صرف عامۃ المسلمین بلکہ خواص بھی مبتلا ہیں وُہ یہ ہے کہ آج اور آج سے قبل کئی صدیوں سے ان کی اکثریت کتاب وسنت، آثار صحابہ
[1] صفۃ صلوٰۃ النبی ص۲۴، ۲۳