کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 66
أعلم منه برسول اللّٰه - صلى اللّٰه عليه وسلم - فيترك قوله ذلك ثم تمضي الاتباع یعنی ویل سے عام آدمی کی لغزشوں کی پیروی کے لیے، عرض کیا گیا اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا عالم‘ اپنی صوابدید سے ایک بات کہتا ہے پھر اسے اپنے سے بڑا عالم مل جاتا ہے ( جس سے اس کو حدیث نبوی مل جاتی ہے) تو وُہ اپنی رائے کو ترک کردیتا ہے پھر اس کے مقلدین اس کی پہلی بات کو لے کراس کی پیروی کرتے ہیں) پھر ابنِ عبدالبر فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمایا: "تذهب العلماء ثم تتخذ الناس رؤساً جهالاً يسألون فيفتون بغير علم، فيضلون ويضلون"[1] علماء ختم ہوجائیں گے پھر لوگ جاہلوں کو اپنے سرداربنالیں گے، اُن سے مسائل پُوچھے جائیں گے تو وُہ بغیر علم کے فتوے دیں گے۔ خود بھی بھٹکیں گے دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ یہ سب تقلید کاابطال اور اس کی نفی ہے اس شخص کے لیے جو اسے سمجھے اوراس کے نصیب میں رشدوہدایت ہو، فساد تقلید کے بارے میں ائمہ امصار میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اس لیے زیادہ دلائل کی بجائے اس قدر کافی ہے۔ علامہ ابن قیم نے بھی اسے اعلام الموقعین میں نقل کیا ہے۔ [2] ابنِ قیم رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”تقلید کے ساتھ فتویٰ دینا جائز نہیں ہے۔ چونکہ تقلیدعلم نہیں ہے اور علم کے بغیر فتوے دینا حرام ہے اور اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہےکہ ”تقلید علم نہیں ہے“ اور یہ کہ مقلد پر عالم کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘‘ ایسے ہی سیوطی فرماتے ہیں :”مقلد عالم نہیں کہلاسکتا جیسے ابوالحسن سندھی حنفی نے ابن ماجہ کے حاشیہ کے ابتداء میں نقل کیا ہے اورشوکانی نے ارشاد الفحول ص۲۳۶ میں لکھا ہے۔