کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 65
قرآن کریم میں اپنے آباء ورؤساء کی تقلید کے ضمن میں بہت ساری آیات ہیں۔ علماء امت نے ان آیات سے تقلید کی ممانعت پر دلیل پکڑی ہے، ان کا کفر ان آیات سے حجت پکڑنے میں مانع نہیں ہوا، چونکہ مشابہت ایک گروہ کے کفر اور دُوسرے کے ایمان کی وجہ سے واقع نہیں ہوئی بلکہ مشابہت ان دونوں تقلیدوں میں اس لحاظ سے ہے کہ دونوں میں بلاحجت مقلدین اپنے پیشواؤں کی اتباع کرتے ہیں جیسے ایک آدمی نے کسی کی تقلید کی تو وُہ صرف گناہ کا مرتکب ہوا، تیسرے نے کسی کی تقلید کی تو اس نے خطا کرلی، یہ تینوں بلا دلیل تقلید کرنے پر ملامت کے برابر حقدار ہوں گے چونکہ ان میں سے ہر ایک نے تقلید کی ہے جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے اگرچہ ان کے گناہ مختلف ہیں۔ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا، وَلَا تغدُ إمَّعة فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ“(عالم بن یا متعلم‘ اندھا مقلد نہ بن۔ ) ایک دوسری سند سے یوں روایت کی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کنا ندعوا لامعة فی الجاھلیة الذی یدعی الی الطعام فیذھب معه بغیرہ وھو فیکم الیوم المحقب دینه الرجال“ہم زمانہ جاہلیت میں اس شخص کو ”امعۃ“ کہا کرتے تھے جب کھانے پربلایاجائے اور وُہ اپنے ساتھ کسی اور کو لے جائے لیکن آج اس کا معنی ہے ہ شخص جو اپنے دین کو دوسروں کے پیچھے لگاتا ہے یعنی مقلد ہے۔ حضرت ابنِ عباس سے مروی ہے وُہ فرماتے ہیں : ويل للاتباع من عثرات العالم، قيل وكيف ذلك؟ قال: يقول العالم برأيه ثم يجد من هو