کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 63
قربانیوں کے گلوں میں جو رسیاں ڈالی جاتی ہیں اُن کو بھی قلادے کہتے ہیں وُہ بھی اسی سے ماخوذ ہے گویا کہ مقلد جس مجتہد کی تقلید کرتا ہےاُس نے اس کے حکم کا پٹا اپنی گردن میں ڈال لیا اور اصطلاح فقہاء میں ”بلاحجت کسی کے قول پر عمل کرنا‘‘ تقلید ہے۔ اس تعریف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر اجماع امت کسی عام کا کسی مفتی کی طرف رجوع کرنا، قاضی کا عادل گواہوں کی شہادت کی طرف رجوع کرنا وغیرہ نکل جائے گا چونکہ ان سب کے بارے میں حجت قائم ہوچکی ہے[1]
اس اصول نص سے ہمیں دو اہم چیزیں مستفاد ہوتی ہیں۔
اول:تقلید کوئی نفع بخش شے نہیں ہے۔
دوم:۔ تقلید جاہل وعامی آدمی کا وظیفہ ہے۔
ضروری ہے کہ ذرا ان دونوں امور کی حقیقت بیان کریں اور ان میں سے ہر ایک پر کتاب وسنت کی روشنی میں نظر ڈالیں، ائمہ کے اقوال سے استشہاد کریں۔ پھراس کے بعد ان ائمہ کے بزعم ِ خویش متبعین کے احوال پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ ائمہ کے اقوال کی پیروی میں کس حد تک صحیح ہیں۔
1۔ پہلی بات کہ تقلید کوئی نفع بخش علم نہیں ہے وُہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک سے زیادہ آیات کے اندر اس کی مذمت کی ہے اس لیے متقدمین ائمہ کے اس کی ممانعت کے بارے میں پے در پے اقوال منقول ہیں، امام اندلس علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اپنی بلند پایہ کتاب ”جامع بیان العلم وفضلہ“میں اس کی تحقیق کے لیے ایک باب باندھا ہے جس کی تلخیص یہاں درج کی جاتی ہے وُہ فرماتےہیں :