کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 61
اخبار آحاد میں سے ہے اس کی اسناد کا مدار وہب بن منبہ اور کعب الاحبار پر ہے۔ “
حالانکہ حدیث رسول اللہ میں تخصیص ومعرفت کے حاملین اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ متواتر حدیث ہے۔ خود میں نے ذاتی طور پر نبی علیہ السلام تک اس کے طرق کا تتبع کیا تو پتہ چلا کہ چالیس صحابہ کرام نے اسےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کم از کم ان میں سے بیس کی اسناد صحیح ہیں اور ان میں سےبعض کے تو ”صحیحین، سنن، مسانید، اور معاجم “ وغیرہ کتب حدیث وسنت میں ایک سے زیادہ صحیح طرق موجود ہیں۔
اور لطیفہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی میں بھی مطلقاً وہب اور کعب کا ذکر نہیں۔ میں نے اپنی مذکورہ تلاش وجستجو کا خلاصہ ان دنوں میں مجلہ ”الرسالہ“ کو دوصفحات میں لکھ کر بھیجا تھا کہ وُہ اسے علمی خدمت کے طور پر شائع کردے گا۔ مگر اس کی قسمت میں اشاعت نہ تھی۔
سویہ سینکڑوں مثالوں میں سے صرف دو مثالیں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم شریعت اسلامیہ کا اصل ثانی ہونے کے اعتبار سے اہل علم کے ہاں جس توجہ اور اعتناء کی حقدار تھی وُہ اسے میسر نہ آئی، حالانکہ اس کے بغیر اصل اول قرآن کریم کی صحیح فہم اور اللہ تعالیٰ کی منشا ومرادکو سمجھنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ بدیں سبب یہ لوگ احادیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس رُسوا کن بے علمی اور اس کی تصدیق سے اس واضح انحراف کے مرتکب ہوُئے، حالانکہ احادیث میں وہی چیزیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے، جس کے متعلق اللہ کا فرمان ہے’’وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ الخ“۔ جو کچھ رسول تمہیں دے اسے پکڑوسوانہوں نے کچھ حصہ لے لیا اور کچھ ترک کردیا۔ (فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ) (ترجمہ ) ایساکرنے والے کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی