کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 60
حدیث کے متعلق بعض فقہاء کا موقف اور سنت سے عدم واقفیت کی دومثالیں!
میں کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر وہ شخص محسوس کرسکتا ہےجسے علمِ حدیث سے شغف ہے، اس کے طرق والفاظ س کا تتبع کرتاہے اور بعض روایات کے بارے میں بعض فقہاء کے موقف پر مطلع ہے۔ میں اس پر دو مثالیں پیش کرتا ہوں، ایک قدیم ہے اور دوسری کا تعلق عصرِ حاضر سے ہے۔
پہلی مثال:۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ” لاَصَلَاة لمن لم يقْرَأ بِفَاتِحَة الْكتاب“ (جس نے فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہے)صحیح ہونے کے ساتھ بخاری مسلم میں بھی مروی ہے اسے حنفیہ نے اس دعویٰ کے ساتھ رد کردیا ہے کہ یہ قرآن کی آیت " فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ" کے ظاہر کے خلاف ہے، سواس کی تاویل( بزعمِ خویش یوں کی یہ خبر واحد ہے حالانکہ امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب، (جزء القرآۃ) کے شروع میں اس کی صراحت کی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر مروی ہے۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے، کیاان پر ضروری نہ تھا اس جلیل القدر امام کے علم سے استفادہ کرتے جسے علمِ حدیث سے خصوصی نسبت اور تعلق ہے، اپنی رائے تبدیل کرتے کہ یہ خبرِ واحد ہے۔ اسے آیت ِ مذکورہ سے ملاتے اور اس کی تخصیص کرلیتے، حالانکہ یہ بھی معلوم ہے کہ اس آیتِ کریمہ کا تعلق صلوٰۃ اللیل سے ہے نہ کہ نماز میں فرضیتِ قراءت کے ساتھ۔
دوسری مثال:۔
آخری زمانہ میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کی حدیث وہ بھی صحیحین میں مروی ہے۔ چند برس پیشتر اس کے متعلق جامعہ ازہر کے شیوخ سے سوال کیا گیا تو ان میں سے کسی کی طرف سے مجلہ ”الرسالہ“ میں اس کا جواب شائع ہوا کہ ”یہ حدیث
[1] مختصر الصواعق ۲/۴۳۲