کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 6
کا اصل باعث غلط تعصب اور ہٹ دھرمی ہےجو من مانی رائے اور خواہشات کی بے راہ روی سے فروغ پاتے ہیں جن کا ایک پہلو تقلید ہے تو دوسرا الحاد، جب کہ اس افراط تفریط سے بچانے والی معتدل راہ ”اتباع سنت“ کے لیے ”روایت حدیث “ کی ہے۔ چونکہ روایت حدیث کا اصل مقصد کتاب اللہ کی عملی تعبیر سنّت وسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہوتی ہے۔ جس کے لیے وسیع علم”درایت حدیث“ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اِنحطاط کے دور میں بہت کم رہ گیا ہے چنانچہ آج ملحدین کا کامیاب حربہ” تشکیک“ ہے یعنی اکثر غیر ثابت شدہ احادیث یا بعض صحیح احادیث کا معنی غلط کرکے ”قرآن کریم“ کی من مانی تفسیر کے ذریعے تضاد پیدا کرکے یہ تاثر دینا کہ اسلام کی چودہ سو سالہ عملی تاریخ بشمول سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عجمی سازش ہے۔ اگرچہ دور حاضر کے بعض ملحدین نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنگامی اور وقتی بناکر نعوذباللہ سازشی کا لقب دینے سے بظاہر احتراز کیا۔ لیکن جس طرح ”دوررسالت“ کے روایتی ذخیرے کے جو درحقیقت ”تبیین کتاب“ کی ایک معجزانہ حفاظت کا کام ہے، جاہلانہ مذاق بنا رکھا ہے وہ ان کے مکروہ عزائم کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ دراصل تقلیدی تعصب نے حدیث کو حدیث سے ٹکرا کر اپنے لیے فرقہ بندی کا راستہ نکالا تھاتو الحادی خواہشات نے حدیث کو قرآن سے ٹکرا کر دین وملّت پر ہاتھ صاف کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ایک دور میں اسی ٹکراؤ اور تناقض کا شکار قرآنِ کریم سے ٹکرا کر یہی مقصد پورا کیا جارہاہے۔ عظیم تابعی حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے اسی ذہن پر اپنے دُکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا:” میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سناتا ہوں اور تو اس میں اللہ کی کتاب سے معارضہ پیش کرتا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کو تجھ سے زیادہ جانتے تھے۔‘‘ [1]
[1] الدارمی /ج۱ ص ۱۱۸، باب السنۃ “ قاضیۃ علی کتاب اللہ