کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 59
کو درد یالذت محسوس ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز کی محبت یا بغض محسوس کرتا ہے، دوسرا کہے کہ اسے درد، لذت، محبت اور بغض نہیں محسوس ہوتے اور اس پر استدلال یہ کرے کہ چونکہ جو کچھ یہ محسوس کرتا ہے میں نہیں کرتا اگر یہ سچا ہوتا اور واقعی اسے درد ہوتا تو میں بھی اس کے ساتھ شریک ہوتا۔ چونکہ مجھے نہیں ہورہا لہذا اسے بھی نہیں ہورہا واضح ہے کہ یہ استدلال بالکل باطل ہے، کس قدر مناسب حال ہے یہ شعر
اقول للائم المھدی ملامة ذق الھوی فان استطعت الملام لم
میں ملامت کا ہدیہ بھیجنے والے کو کہتا ہوں کہ ایک دفعہ عشق کا ذائقہ چکھ کر دیکھ پھر اگر ہوسکے تو ملامت کر۔
پس اس سے کہا جائے گا کہ اپنی عنانِ توجہ احادیث رسول اللہ کی طرف پھیر اور اس کے حصول پر حرص کر، اسے تلاش کر، جمع کر اور اس کے ناقلین کے احوال اور اُن کی سیرت کی معرفت کا التزام کراور اس کے ماسوی سے اعراض کر، اسی کو اپنی غایت مطلوب اور منتہائے مقصود قرار دے بلکہ اس پر اس طرح حریص ہو جس طرح پیروان مذاہب اپنے ائمہ کے مذاہب کی معرفت پر حریص ہیں کہ انہیں اپنے ائمہ کے اقوال ومذاہب پر عِلم ضروری حاصل ہوگیا ہے، اگر کوئی اس کا انکار کرے تو وُہ اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ پھر تجھے معلوم ہوسکے گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث واخبار علم کا فائدہ دیتی ہیں یا نہیں مگر ان سے اور ان کے حصول وطلب سے اعراض کی صورت میں تو وُہ علم کا فائدہ نہیں دیں گی۔ اگر تو یہ کہے کہ تجھے وُہ ظن کا فائدہ بھی نہیں دیتیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا تو آپ اپنے حصے اور نصیب کے بارے میں خبردے رہے ہیں [1]کہ آپ کو اس سے صرف یہ حاصل ہوا ہے)
[1] الصواعق ۲/۳۶۸
[2] ایضاً ۲/۳۷۹۔