کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 56
اقوال کے ساتھ شدت عنایت کی وجہ سے علوم حدیث کو اس طرح جانتے ہیں کہ انہیں اس میں شک ہی نہیں ہوتا اور اُن کے غیر کو اس کا بالکل شعور نہیں ہوتا [1]
افادۂ علم میں خبر شرعی کودیگر اخبار قیاس کرنے کے مفاسد!
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
خبرِ واحد کے افادۂ علم کا منکر قیاس فاسد کا ذکر کرتا ہے، اس نے نبی علیہ السلام کی طرف امت کے لیے عام شریعت یا صفات باری تعالیٰ میں سے کسی صفت کے بارے میں خبر دینے والے کو کسی قضیہ معینہ کے عام شاہد ومخبر پر قیاس کیا ہے فیاللعجب ان میں کس قدر بعد ہے؟پس رسول اللہ کی طرف سے خبر دینے والا اگر عمداً یا خطاً جھوٹ بولنے پر قادر ہوا اور بظاہر ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس کے کذب پر دلالت کرے تواس سے مخلوق کی گمراہی لازم آتی ہے، چونکہ بحث اس خبر کے بارے میں ہے جسے امت نے قبولیت کا درجہ دیا ہے اس کے موجب پر عمل کیا ہے اور اس سے باری تعالیٰ کی صفات اور اس کے افعال ثابت کیے ہیں پس بلاشک شرعاً جن اخبار کو قبول کرنا واجب ہے۔ وُہ نفس الامر میں باطل نہیں ہوسکتیں، خصوصاً جبکہ انہیں پوری امت نے قبول کرلیا ہو۔ ہر اس دلیل کے بارے میں جس کا اتباع شرعاً واجب ہے یہ کہنا ضروری ہے کہ ”وہ صرف حق اور سچ ہے۔ “ تو اس کا مدلول نفس الامر میں ثابت ہوگا۔ یہ رب تعالیٰ کی شریعت ، اس کےاسماء وصفات جیسی اخبار کے بارے میں جو ہم تک پہنچیں بخلاف کسی قضیہ معینہ پر شہادت کے کہ اس کا مقتضیٰ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقت نفس الامری کے طور پر ثابت نہ ہو۔
مسئلہ کا راز اس میں ہے کہ یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی ایسی خبر جس پر عمل کا اللہ تعالیٰ نے امت کو پابند بنایا ہواور زبان ِ نبوی پر امت کو اس سے شناسائی کرائی ہو اور اس