کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 55
پر اجماع کرلے یا مطلق کے اسم پر یا موجب قیاس پر تواس کا اجماع خطا پر نہیں ہوگا۔ اگر امت کا ایک فرد ہوتواس کی انفرادیت پر نظر کرتے ہوئے خطا ء سے مامون نہیں رہا جاسکتا۔ پس عصمت بنسبت ان کے اجماع کے ثابت ہوگی جیسے خبر متواتر میں ایک ایک راوی پر بحیثیت اس کے منفرد ہونے کے خطا وکذب کا حکم لگاتا تو جائز ہے مگر اُن کے مجموعہ پر ناجائز ہے، اسی طرح امت اپنی اجماعی حیثیت سے اپنی روایت اور رائے میں معصوم ہے، فرمایا اخبار آحاد کبھی تو اپنی شروط کے ساتھ ظن ہوتی ہیں جب قوی ہوجائیں تو علم کا فائدہ دیتی ہیں‘ جب کمزور اور ضعیف ہوجائیں تو اوہام وخیالات فاسدہ بن جاتی ہیں، (مزید فرمایا) تحقیق بخاری ومسلم کی اکثر احادیث اسی باب سے ہیں جیسا کہ ابن ِ صلاح اور اُن سے پہلے حافظ ابو طاہر سلفی وغیرہ علماء امت نے ذکر کیا۔ پس جواحادیث علماء امت اور اہل حدیث کے ہاں تلقی بالقبول اور تصدیق حاصل کرلیں اُن سے علم کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور وُہ یقین کا فائدہ دیتی ہیں، اُن کے علاوہ متکلمین اور علماء اصول پر اس باب میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جملہ امور دین کے متعلق اجماع کے بارے میں صرف مسئلہ کے اہل علم کا ہی اعتبار ہوگا جیسے احکامِ شرعیہ کے بارے میں اجماع کا اعتبار صرف علماء شریعت پر ہی ہوگا نہ کہ متکلمین ، نحاۃ اور اطباء پر ایسے ہی حدیث کے صدق اور عدم صدق کے متعلق صرف علوم حدیث، اس کے طرق وعلل کے ماہر علماء کاہی اعتبار ہوگا اور وُہ علماء حدیث ہیں جواپنے نبی کے احوال کے عالم ہیں، اس کے اقوال وافعال کو ضبط رکھنے والے اور مقلدین کے اپنے متبوع ائمہ کے اقوال کی نسبت نبی علیہ السلام کے متعلق اشد ترین اعتناء برتنے والے ہیں، پس جیسے تواتر کا علم خاص اور عام کی طرف تقسیم ہوتا ہے۔ خواص کے ہاں بعض علوم متواتر ہوتے ہیں اورعوام کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا، ان کو بالتواتر علم ہونا تو کجا، سو اہل الحدیث سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے احوال و