کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 54
دیاہے) اور اس کے علاوہ کئی احادیث ہیں‘ابن قیم فرماتے ہیں: ”شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: امت محمدیہ کے اول وآخر جمہور اہل علم کے نزدیک یہ احادیث علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں، سلف میں اس کے متعلق اختلاف ونزاع نہ تھا اور جہاں تک خلف کا تعلق ہے اصحابِ ائمہ اربعہ میں سے بڑے بڑے فقہاء کا بھی یہی مذہب ہے، جیسا کہ مالکیہ حنفیہ، اور حنبلیہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ منقول ہے۔ مثلاً سرخسی اور ابوبکر رازی حنفیہ میں سے، شیخ ابو طیب ‘ ابوحامد، اور شیخ ابواسحاق شافعیہ میں سے، ابن خویزمندادوغیرہ مالکیہ میں سے، قاضی ابویعلی ابن ابی موسیٰ اور ابوالخطاب وغیرہ حنبلیہ میں سے اور ابو اسحاق اسفرائینی، ابن فورک‘ابواسحاق النظام، متکلمین میں سے ہیں اس کے قائل ہیں، ابن صلاح نے یہ مسئلہ ذکر کیا، اس کی تصحیح کی اور اسے اختیار کیا ہے لیکن اس کے قائلین کی کثرت اسے معلوم نہ تھی کہ ان سے تقویت حاصل کرتا، اس نے تو صرف بموجب حجت صحیحہ کے اسے اختیار کیااور جن مشائخ نے ابن صلاح پر اعتراض کیاہے وہ علم اور دین سے تو متصف ہیں مگر انہیں اس بات میں مہارت تامہ نہیں ہے۔ ان کو خیال ہوا کہ ابنِ صلاح نے جو کیاوُہ اس میں جمہور امت سے منفرد ہے اور ان کاعذر ان میں یہ ہے کہ وُہ ان مسائل میں ابن ِ حاجب کے کلام کی طرف رجوع کرتے ہیں، اگر ایک درجہ اور بڑھیں تو سیف آمدی اور ابن الخطیب تک پہنچتے ہیں، اگر ان کی سند اور عالی ہوتی ہے تو وہ غزالی، جوینی اور باقلانی کے ہاں رسائی حاصل کرتے ہیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: حالانکہ تمام اہل الحدیث کا مسلک وہی ہے جس کا ابنِ صلاح نے ذکر کیا ہے اور جمہور کا جواب یہ ہے کہ”امت کا کسی حدیث کو تصدیقاً اور عملاً قبول کرلینا ان کا اس پر اجماع کرلینا ہے اور پوری امت ضلالت وگمراہی پر جمع نہیں ہوتی، جیساکہ اگر موجبِ عموم
[1] مقدمہ ص ۲۸۔ ۲۹