کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 53
بہت سی اخبار آحاد سے علم ویقین کا فادہ !
گذشتہ سطور میں جو بحث گزری ہے اور عقائد واحکام میں مذکورہ تفریق کے بطلان کی تحقیق ہوئی ہے وُہ سب اس مفروضہ پر قائم ہے اگر علی سبیل التنزل یہ تسلیم کرلیں کہ خبرِ واحد ظن راجح کا فائدہ دیتی ہے، قطعی علم اور یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔ پس یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مفروضہ علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اس میں اپنے مقام پر تفصیل ہے۔ اب ہمیں جس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے وُہ یہ ہے کہ اخبار آحاد کئی مقامات پر علم ویقین کا فائدہ دیتی ہیں۔ جیسے وُہ احادیث جنہیں امت کے ہاں تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہے اور وُہ احادیث جنہیں امام بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ان پر تنقید نہیں کی گئی اور ان پر صحت کا قطعی حکم لگایا گیاہے۔ ایسی احادیث سے علم یقینی فطری حاصل ہے، جیساکہ امام ابنِ صلاح نے اپنی کتاب علوم الحدیث (مقدمہ ابنِ صلاح) میں اس پر جزماً حکم لگایا ہے[1]اور ابنِ کثیر نے ”اختصار علوم الحدیث“ میں اس کی تائید کی ہے۔
اس سے قبل ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئےہیں اور ابنِ قیم نے ان کی پیروی کی ہے اور متعدداحادیث بطور مثال پیش کی ہیں، مثلاً
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’ِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ“(اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے )
اور حدیث ’’ إذا جلس بين شعبها الأربع ثم جهدها فقد وجب الغسل۔ “(جب کوئی آدمی اپنی بیوی کے ہاتھ پاؤں کے درمیان بیٹھ کر جماع کی کوشش کرے تو غسل واجب ہوجاتاہے)
اور حضرت ابن عمر کی حدیث ” فرض رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زکوٰۃ الفطر فی رمضان علی الصغیر والکبیر والذکر والانثیٰ“
رسول اللہ نے صدقۃ الفطر رمضان میں ہر چھوٹے، بڑے، مرد اور عورت پر لازم قرار
[1] ۲، ۴۱۲ اعلام الموقعین