کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 51
ان سےعملیات میں احتجاج کرتی ہے اور خصوصاً علمی احکام جو اللہ کی طرف سے خبر دینے کو متضمن ہیں کہ اُس نے فلاں بات مشروع کی، فلاں واجب اور فلاں کو بطور ِ دین پسند فرمایا پس اللہ کی شریعت اوراس کا دین اس کے اسماء اور اس کی صفات کی طرف راجع ہے۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اہل حدیث وسنت ہمیشہ ان احادیث سے مسائلِ صفات ، قدر، اسماء الٰہی اور احکام کے بارے میں احتجاج کرتے رہے ہیں، ان میں سے قطعاً کسی سے منقول نہیں ہے کہ اُس نے اخبار آحاد سے اسماء وصفات الٰہیہ وغیرہ اعتقادیات کے علاوہ صرف احکام میں ان سے حجت پکڑنے کو جائز کہا ہو وہ سلف کہاں ہیں جو اس مذکورہ تفریق کے قائل ہوں؟ ہاں اس کے سلف متاخرین میں سے بعض متکلمین ہیں جنہیں اللہ، اس کے رسول اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے موصول ہونے والے احکام سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ اس باب میں کتاب وسنت اور اقول ِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہدایت حاصل کرنے والوں کوروکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن سے عقائد واحکام کی مذکورہ تفریق منقول ہے‘ان کا رجحان متکلمین کی آراء اور متکلمین کے اقوال کی طرف ہے۔ اور انہیں اس تفریق پر اجماع کا دعویٰ بھی ہے۔ حالانکہ یہ تفریق صحابہ تابعین اور ائمہ مسلمین میں سے کسی امام سے محفوظ نہیں ہے پس ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صحیح صحیح فرق بتائیں کہ دین کے کس حصے میں خبرِ واحد سے ثبوت جائز ہے اور کس حصے میں ناجائز، وُہ باطل دعووں کے سوا اس میں کبھی کوئی واضح فرق نہیں کر پائیں گے جیسے ان میں سے بعض کا قول ہے کہ اصولی مسائل علمیات یعنی عقائد ہیں اور فروعات، عملیات یعنی احکام ہیں اور یہ تفریق بھی باطل ہے کیونکہ عملیات سے مقصود ووامرہیں، علم اور عمل اور عملیات سے مطلوب بھی یہی دو چیزیں علم اور عمل ہیں اور وُہ دل کی محبت اور اس کا بغض۔ حق کے لیے دل کی محبت یہ ہے کہ وُہ اس پر دلالت کرے اور اس کو متضمن ہو اور باطل کے لیے
[1] ص ۴۵۷۔ ”الرسالہ۔ “