کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 50
بھی عام ہے۔ امام موصوف اس مبحث کے اختتام پر فرماتے ہیں: ”خبر ِ واحد کے ثبوت میں کئی احادیث ہیں جن میں سے ان بعض کا ذکر کافی ہے ہمارے اسلاف اور اُن کے بعد والے لوگ جن کا ہم نے مشاہدہ کیا سب کا یہی طریق تھا ( کہ وہ خبر واحب کو حجّت مانتے تھے۔ مختلف شہروں کے اہل علم جن کی روایات ہمیں ملی ہیں اُن سے بھی یہی حکایات کیا گیا۔ “ یہ بھی عام ہے یعنی عقائد واحکام سب کو مشتمل ہے، ایسے ہی امام صاحب فرماتے ہیں : ”اگر کسی کے لیے کسی خاص مسئلہ کے بارے میں یہ کہنا جائز ہے کہ ”اس پر قدیم وجدید کے تمام مسلمانوں کا اجماع ہے“ تو میں خبرِ واحد کی حجیّت کے متعلق ایسے ہی کہتا لیکن میں اس کے بجائے یہ کہتا ہوں کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ فقہائے مسلمین میں سے کسی نے خبرِ واحد کی حجیت میں اختلاف کیا ہو۔ [1] عقیدے کےمتعلق اخبار آحاد سے عدم حجیت نوپید بدعت ہے! فی الجملہ کتاب وسنت کے دلائل، صحابہ کرام کا عمل اور علماء کےاقوال ہماری بیان کردہ تفصیل پر قطعی دلالت کرتے ہیں کہ تمام ابوابِ شریعت میں اخبار آحاد پر عمل کرنا اور اُن سے دلیل پکڑنا واجب ہے، اس میں اعتقاد یات اور عملیات برابر ہیں اور اُن کے مابین فرق کرنا ایسی بدعت ہے جس کا وجود سلف صالح کے ہاں نہ تھا اس لیے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔ ”اس تفریق کے بطلان پر اجماع امت ہے، امت ہمیشہ ان احادیث (ا خبار آحاد) سے علمی اخبار( عقیدہ) کے بارے میں حجت پکڑتی رہی ہے جس طرح
[1] الرسالہ ۴۴۲، ۱۲۱۹ [2] ملاحظہ ہو الرسالۃ ۴۰۱۔ ۴۵۳