کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 47
قَالَ فَأَخَذَ بِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَقَالَ: «هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ اخرجه مسلم ۷/۱۲۹ ورواہ البخاری مختصراً حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ اہل یمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے ساتھ ایک آدمی بھیج دیں جو ہمیں سنت اور اسلام کا علم سکھائے۔ راوی کہتا ہے۔ نبی علیہ السلام نے ابو عبیدہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا یہ اس امت کا امین ہے۔ پس اگر خبرِ واحد سے حجت قائم نہ ہوسکتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اکیلے حضرت ابوعبیدہ کو نہ بھیجتے۔ ایسے ہی دیگر اوقات میں حضرت ابو عبیدہ کو اہل یمن کی طرف بھیجنے یا اس کے علاوہ دیگر صحابہ کرام کو مختلف بلاد کی طرف روانہ کرنے کے بارے میں کہا جائے گا۔ حضرت علی بن ابی طالب اور معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم ان کی احادیث بخاری ومسلم وغیرہما میں موجود ہیں۔ بلاشبہ یہ صحابہ کرام جن کی طرف انہیں بھیجا جاتا تھا۔ اُن کو جہاں دیگر چیزوں کی تعلیم دیتے تھے وہاں عقائد کی تعلیم بھی دیتے ہوں گے، اگر اُن کے ساتھ ان اہل بلاد حجت پر قائم نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اکیلے اکیلے نہ بھیجتے۔ چونکہ ایسا کرنا عبث تھا جس سے آپ کی ذات گرامی منزہ ومبرّا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی درج ذیل عبارت کا بھی یہی معنی ہے وُہ فرماتے ہیں: ”نبی علیہ السلام جب کسی کو اپنے حکم سے کسی قوم کی طرف بھیج دیتے تو ان پر نبی علیہ السلام کے متعلق اس کی خبر کو قبول کرنےسے حجت قائم ہوجاتی ۔ آپ کو اس پر بھی قدرت تھی کہ آپ اُن کی طرف پہنچتے۔ اور بالمشافہ انہیں پیغام دیتے یا ایک جماعت کو بھیجتے، پس آپ نے صرف ایک ایک آدمی کو بھیجا جس کو وُہ سچا سمجھتے تھے۔ “[1] حدیث ثالث:۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلاَةِ