کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 45
سےسنا ہوتا ہے۔ یہ اس قائل کی گواہی ہوتی ہے جسے دُعا بالجزم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب قول وفعل میں دیتا ہے۔ پس اگر خبر واحد علم کا فائدہ نہیں دیتی تو وُہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بغیر علم کے گواہی دینے کا ارتکاب کرتا ہے[1]“
دلیل رابع:۔
نبی علیہ السلام اور صحابہ کرام کا طرزِ عمل بھی خبرِ واحد سے حجت پکڑنے پر دلالت کرتا ہے۔
نبی علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام کی عملی سنت جس پر وُہ آپ کی زندگی میں اور وفات کے بعد رہے وُہ بھی خبر ِ واحد سے حجت پکڑنے میں عقائد واحکام کے درمیان فرق نہ کرنے پر قطعی دلالت کرتی ہے اور اس بارے میں حجت قائمہ ہے اور بعض احادیث جن پر مجھے اللہ کے حکم سے وقوف ہوسکا۔ یہاں ذکر کرتا ہوں۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں[2]:۔
باب خبر واحد کے اذان، نماز، روزہ ا ور فرائض واحکام کے بارے میں معتبر ہونے کے متعلق کیا حکم ہے، اللہ کا فرمان ہے:۔ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ۔
ترجمہ:۔ ( یعنی ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہرفرقے میں سے کچھ لوگ نکلیں تاکہ وُہ واپسی پر اپنی قوم کو ڈرائیں تاکہ وُہ بچیں)
ایک آدمی کو طائفہ کہا جاتا ہے، جیسے فرمایا:
”وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا“ اگر مومنوں میں سے دو طائفے لڑیں تو اگر دو آدمی بھی جھگڑا کریں تو وُہ آیتِ مذکورہ کے معنی میں داخل ہوجائیں گے (توگویا ان میں سے ہر فرد ایک طائفہ ہوا) نیز اللہ کا قول ہے’’إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا“۔ اگر تمہارے پاس کوئی فاسق آدمی خبر لائے تواس کی تحقیق کرو اورنبی علیہ السلام نے اپنے امراء کو ایک دوسرے کے بعد کیسے بھیجا۔ اگر ان میں سے کوئی
[1] مختصر الصواعق ج۲ص۳۲۹