کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 44
واضح اور معلوم ہے کہ مسلمان عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر ہمیشہ اخبار آحاد کے درپے رہے ہیں، ان پر عمل پیرارہے ہیں، ان سے امورِ غیبیہ اور حقائق اعتقاد یہ ثابت کرتے رہے ہیں جیسے بدر الخلق اور اشراط الساعۃ وغیرہ بلکہ اللہ کی صفات کے بارے میں بھی اُن سے ثبوت پکڑتے رہے ہیں۔ پس اگر وُہ علم کا فائدہ نہیں دیتیں اور اُن سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلام سب ایسی باتوں کے درپے رہے جن کا انہیں علم نہ تھا جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :”وھذا مما لایقوله مسلم“ (اس کا کوئی مسلمان قائل نہیں ہے[1]) دلیل ثالث:۔ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا “(وفی القرأۃ الأخریٰ فتتثبتوا) یعنی اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی فاسق آدمی کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ سو یہ آیت اس چیز کی دلیل ہے کہ عادل اور دیانتدار آدمی جب کوئی خبر دے خواہ کسی قسم کی ہوتو اس سے حجت قائم ہوجاتی ہے اور اس میں ثبوت حاصل کرنا واجب نہیں ہے، بلکہ فی الفور عمل کیا جائے، اسی لیے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”یہ آیت خبرِ واحد کے قبول کرنے پر جزماً دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خبر واحد اپنے ثبوت کے بعد مزید تحقیق کی محتاج نہیں ہے۔ اگر خبرِ واحد سے علم کا فائدہ نہ ہوتا تو حصول علم کےلیے مزید تحقیق کا حکم دیا جاتا ہے اور اس سے بھی خبر واحد کےقبول کرنے پر دلالت ہوتی کہ سلف صالح ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا، ایسے کیا، اس بات کا حکم صادر فرمایا اور اس چیز سے منع فرمایا اور یہ ان کے کلام سے لازماً معلوم ہے۔ “صحیح بخاری میں متعدد مقامات پر ہے ”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور یہ بہت ساری احادیث صحابہ میں ہے، ایک صحابی کہتا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، حالانکہ اس نے اپنے جیسے کسی دوسرے صحابی