کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 43
ہیں جن میں سے بعض دلائل اور اُن سے وجہ استدلال کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دلیل اوّل : ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً  فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنوں کو اس بات پر برانگیختہ کیا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ دین سیکھنے اور اس میں فہم پیدا کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکلے، بلاشک یہ تعلیم فروع و احکام کے ساتھ خاص نہیں عام ہے بلکہ یہ قطعی بات ہے کہ معلم ومتعلم اسی حصے سے ابتداء کریں گے جو تعلیم وتعلم کے اعتبار سےاہم ترین ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ عقائد احکام کی نسبت اہم ہیں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اخبار آحاد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ یہ آیتِ کریمہ اُن کے خیال کو باطل قرار دیتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جس طرح ”طائفہ“ کو عقائد واحکام میں سے جو کچھ سیکھیں واپسی پر اس کے ذریعے اپنی قوم کو ڈرائیں اور ”طائفہ “ کا لفظ لغتِ عرب میں ایک یا ایک سے زیادہ پر بولا جاتا ہے، اگر اخبار آحاد سے عقائد واحکام میں حجت قائم نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ ”طائفہ کو تبلیغ پر عام توجہ نہ دلاتا اور ”لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ“ کے ساتھ اس کی علت بیان نہ کرتا جو صراحۃً اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علم ”طائفہ “ کے ڈرانے سے حاصل ہوتا ہے پس یہ بھی دیگر آیاتِ شرعیہ و کونیہ کی طرح ہی ہے جیسے فرمایا  لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ( تاکہ وہ فکر کریں  لَعَلَّهُمْ يَعْقِلُونَ (تاکہ وُہ عقل کریں)  لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ( تاکہ وُہ ہدایت پائیں ) سو یہ آیت کریمہ اخبارآحاد کے تبلیغ عقائد واحکام میں حجت ہونے پر نص ہے۔ دلیل ثانی :۔ اللہ تعالیٰ فرمان ہے : ”وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ “( جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے درپے نہ ہو) یعنی اس کی پیروی نہ کر، اس پر عمل نہ کر۔