کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 42
ہوگیا کہ تمام آیات واحادیث مذکورہ جو احکام میں خبرِ واحد پر عمل کو واجب قرار دیتی ہیں وُہ اپنے عموم وشمول کی بناء پر عقائد میں وجوب عمل کو بھی متضمن ہیں اور حق بات یہ ہے، کہ عقائد واحکام میں اس طرح تفریق کرنا کہ ایک میں اخبار احاد سے حجت پکڑنا جائز ہے اور دوسرے میں ناجائز یہ اسلام میں نوپید فلسفہ ہے جسے سلف صالح اور ائمہ اربعہ (عصر حاضر کے جمہور مسلمان جن کی تقلیدکا دم بھرتے ہیں) نے نہیں جانا پہچانا۔ اخبار آحاد کو حجت تسلیم نہ کرنے کا عقیدہ وہم وخیال پر مبنی ہے! یہ بڑی عجیب بات ہے جسے آج کل ان خطباء سے سنا جاتا ہے جن کا ایمان حدیث کی تصدیق کرنے میں کمزور ہوچکا ہے، وُہ بار بار اسے اپنے خطبوں میں دہراتے ہیں حتیٰ کہ بعض متواتر احادیث کے بارے میں بھی وُہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ”خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ “ جیسے نزول عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایت ہے۔ قابل ِ تعجب بات یہ ہے کہ خود اُن کا یہ کلام بھی تو عقیدہ ہے جیسا کہ میں نے ایک مرتبہ اپنے مناظرے میں ان سے یہ کہا تھا جو کہ اس مسئلہ کے بارے میں ہوا تھا۔ اس بناء پر انہیں اپنے اس قول کی صحت کے لیے بھی کوئی قطعی دلیل دینی چاہیے ورنہ اُن کے کلام میں تناقض پایا جاتا ہے لیکن اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے صرف دعویٰ ہے۔ اس قسم کا دعویٰ عقائد میں کیا احکام میں بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ مردود ہے۔ وُہ عقیدے میں ظن راجح پر اعتماد سے بھاگے اور ظن مرجوح کو اسی کے بارے میں تسلیم کرلیا۔ فاعتبروایااولی الابصار۔ یہ صرف کتاب وسنت کی فہم براہِ راست ‘اُن کے نور سے ہدایت حاصل نہ کرنے اورآراء الرجال میں مشغول ہونے کا نتیجہ ہے۔ عقائد کے متعلق خبرِ واحد سے حجیّت کے وجوب پر دلائل ! گذشتہ عقائد کی نسبت خاص عقائد میں خبرِ واحد کو حجت ماننے پر بھی دلائل موجود