کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 40
دیتی ہیں۔ ا ور اس سے مراد وُہ ظن غالب لیتے ہیں جس پر عمل کرنا احکام میں تو بالاتفاق واجب ہے۔ مسائل اور اخبارِ غیبیہ میں اس پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے اور عقیدہ سے مُراد بھی یہی ہے۔ اگر ہم علیٰ سبیل التنزل ان کی یہ بات مطلقاًصحیح تسلیم کرلیں کہ ”اخبار آحاد صرف ظن کا فائدہ دیتی ہیں تو ہم اُن سے سوال کریں گے کہ عقائد واحکام میں تفریق کا یہ جواز آپ نےکہاں سے لیا اور اس پر کیا دلیل ہے کہ عقیدے میں ان پر اعتماد جائز نہیں ہے؟‘‘
ہمارےبعض معاصرین إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ( کہ وہ صرف ظن ہوئے اور ہوائے نفسانی کی پیروی کرتے ہیں) اور إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ( بے شک ظن حق سے کچھ کفایت نہیں کرتا) وغیرہ آیات سے بھی استدلال کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ مشرکین کی ظن کی پیروی کرنے پر مذمت فرماتے ہیں اور انہیں یاد نہیں رہا کہ ان آیات میں مذکور ظن سے مراد ظن غالب نہیں ہے جس کا فائدہ اخبار آحاد سے حاصل ہوتاہے اور اس پر بالاتفاق عمل واجب ہے بلکہ اس سے مراد وہ شک ہے جسے خرص ( اٹکل ) کہا جاتا ہے۔ النہایہ لابن اثیر اور لسان العرب وغیرہما کتب لغت میں ہے ”الظن الشک یعرض لک فی الشی ء فتحققہ وتحکم به “ ( ظن اس شک کو کہتے ہیں جو آپ کی کسی چیز میں لاحق ہے تو آپ اس کی تحقیق کے بعد اس پر حکم لگائیں) یہی وُہ ظن ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں اطلاع دی ہے اس کی تائید اس ارشادِ باری تعالیٰ سے بھی ہوتی ہے إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ اس میں اللہ تعالیٰ نے صرف تخمینے اور اندازے کو ظن بتایا ہے۔
اگر اس ظن سے مراد جس کی اطلاع ان آیات میں مشرکین پر دی گئی ہے ظن غالب ہوتا جیساکہ ان استدلال کرنےو الوں کا خیال ہے تواس پر احکام میں عمل کرنا جائز نہ ہوتا۔ یہ میں دو وجوہ کی بناء پر کہتا ہوں۔