کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 39
اور نبی علیہ السلام کی اتباع ان میں واجب ہے، چونکہ بلاشبہ آیتِ مبارکہ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ۔ ترجمہ:کسی مومن مرد، عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ فرمادیں توانہیں اس میں کوئی اختیار ہو۔ میں لفظِ امر عقائد پر بھی مشتمل ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا نبی علیہ السلام کی پیروی کا حکم فرمانا، آپ کی نافرمانی سے منع کرنا، آپ کی مخالفت سے ڈرانا اور مومنوں کی اس بات پر تعریف کرنا کہ جب اللہ اور اُس کے رسول کی طرف اپنے محاکمات ومقدمات لانے کی دعوت دی جائے تو وہ ’’سمعنا واطعنا“ کہہ کر قبول کرتے ہیں، وغیرہ تمام باتیں عقائد واحکام دونوں میں نبی علیہ السلام کی اطاعت وفرمانرداری کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں، نیز ارشاد باری تعالیٰ”وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ“ میں ”ما“ الفاظ عموم وشمول میں سے ہے جیسا کہ معروف ہے ( سویہ بھی عقائد واحکام سب کو متضمن ہے۔ ) اگر آپ اُن سے سوال کریں کہ صرف احکام کے بارے میں اخبار آحاد سے وجوب کے ثبوت کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے تو ان سابقہ آیات وغیرہ سے ہی استدلال کریں گے، ہم اختصار کے پیشِ نظر انہیں دوبارہ ذکر نہیں کرتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الرسالہ“ میں ان کے مستدلات کو بالاستیعاب ذکر کیا ہے۔ تفصیل کے لیے اسے ملاحظہ فرمائیں۔ آخر ان آیات سے وجوب حکم سے عقائد کو مستثنیٰ کرنے کی کیاوجہ ہے جبکہ وُہ (عقائد) عموم آیات میں داخل ہیں۔ ان کو عقائد کے علاوہ صرف احکام کے ساتھ خاص کرنا تخصیص بلا مخصص ہے اور یہ باطل ہے جس سےباطل لازم آئے وُہ خود بھی باطل ہوتا ہے۔ (سوان آیات کو احکام کے ساتھ خاص کرنا باطل ٹھہرا) ایک شبہ اور اس کا ازالہ انہیں ایک شبہ پڑا جو بالآخر اُن کے ہاں عقیدہ بن گیا کہ اخبار آحاد صرف ظن کا فائدہ
[1] ابن حزم۔ الاحکام فی اصول الاحکام ج ۶ ص ۱۰۰/۱۰۵