کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 34
چند انسانوں کے عمل کے سوا کوئی سند دلیل بھی نہیں ہےجیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئےہیں صحیح عمل وہی ہے جو موافق ِ سنت ہو، سنتِ میں زیادتی دین میں زیادتی ہے اور سنت میں نقص اور کمی دین میں نقص ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ مذکورہ کمی بیشی کےبارےمیں فرماتے ہیں۔ ”پہلی چیز ( دین میں زیادتی) قیاس ہے اور دوسری (دین میں کمی) باطل تخصیص ہے اور یہ دونوں چیزیں دین سے نہیں ہیں جو شخص نص پر نہیں ٹھہرتا وُہ کبھی تو یہ کہہ کرنص میں اضافہ کردیتا ہے کہ یہ ”قیاس “ ہے اور کبھی ایسی چیزوں میں کمی کردیتا ہے جن کا نص تقاضا کرتی ہے اور اسے اپنے حکم سے نکال دیتا ہے اور اسے ”متخصص“ کا نام دے دیتا ہے اور کبھی یہ کہہ کر کلیۃً نص کوچھوڑدیتا ہے کہ ”اس پرعمل نہیں ہے۔ “ یا ”یہ اصول کے خلاف ہے۔ “ پھر فرماتےہیں :”کہ ہم دیکھتے ہیں جوں جوں قیاس میں غلوبڑھتا جاتا ہے۔ سنن کی مخالفت بھی شدت اختیار کرجاتی ہے۔ آثار وسنن کی مخالفت ہمیں صرف اہل رائے اور اصحابِ قیاس میں ہی نظر آئے گی۔ خدارا: دیکھئے کتنی ہی سنن صریحہ وصحیحہ اس قیاس کی بدولت معطل قرار پائیں اور کتنے ہی آثار واحکام اس کے سبب مضحمل ہوئے سوآثار وسنن اہل الرائے اور اصحاب القیاس کے ہاں اپنا مقام کھو بیٹھے، اپنے احکام سے معطل ہوگئے، اپنی حیثیت سے معزول ہوگئے۔ نام ان کا ہے اور حکم ان کے غیر کا۔ سکہ ان کا رائج ہے اور امر ونواہی اس کے غیر کے، گر ایسا نہ ہوتا تو انہیں ترک کیوں کیاجاتا؟ احادیث صحیحہ کی چند مثالیں اُن کی قواعد کی وجہ سے جن کی مخالفت کی گئی! ۱۔ حدیث:۔ کہ ’’نئی شادی کرنے پر بیوی کا حقِ عقد کنواری ہے تو سات راتیں ہے اور رانڈ ہے تو تین راتیں۔ پھر برابر تقسیم ہوگی۔ “