کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 33
ورنہ اُن کے لیے کس طرح جائز ہے کہ وُہ حدیث پر اسے ترجیح دیں، باوجود اس چیز کا علم ہوتے ہوئے کہ قیاس رائے اور اجتہاد پر مبنی اور قائم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ رائے واجتہاد میں خطاء کا احتمال ہے، اسی لیے صرف بوقت ِ ضرورت ہی اس سے تعرض کیا جاتا ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا قول گزرچکا”لایحل القیاس والخبر موجود“ یعنی حدیث کی موجودگی میں قیاس جائز نہیں ہے۔ نیز کسی بھی شہر کے اہالی کے عمل کو حدیث پر مقدم کرنے کا ان کے پاس کیا جواز ہے جبکہ وُہ جانتے ہیں کہ وہ تنازع کی صورت میں اپنے مقدمات حدیث کی طرف لے جانے کے پابند ہیں جیسا کہ اُوپر گزرچکا ہے، ایسے شخص کے متعلق امام سبکی کا قول کس قدر شاندار ہے جسے ایک حدیث بھی ایسی مل جاتی ہے جسے اس کے مذہب نے تسلیم نہیں کیا اور وُہ اس مذہب کو اختیار کرتا ہے۔ والأَولى عندي اتّباع الحديث والْيفرض الإنسان نفسه بين يدي النبي صلى اللّٰه عليه وسلم وقد سمع ذلك منه، أَيَسَعُهُ التأخر عن العمل به؟! لا واللّٰه، وكلّ أحد، مکلف بحسبھم فھمه [1] یعنی میرے نزدیک حدیث کی پیروی اولیٰ ہے، انسان یہ فرض کرے کہ وُہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رُو برُو بیٹھا ہے اور آپ کا حکم سُن رہا ہے کیااس کے پاس اس پر عمل کرنے سے تاخیر کی گنجائش ہے، خبردار سوگندبخدا، ہر شخص اپنے علم کے مطابق مکلف ہے۔ اس سے ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے کہ حدیث وسنت کےثبوت میں شک وشبہ نے انہیں اس خطا میں مبتلا کیا ورنہ اگر انہیں یہ یقین میسر آجاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو ان قواعد کو اپنی زبانوں پر بھی نہ لاتے، ان پر عمل کرنا اور ان کی بناء پر سینکڑوں احادیث ثابتہ کی مخالفت کرنا تو کجا، جبکہ اُن کے پاس رائے وقیاس اور
[1] رسالہ”معنی قول الامام الطلبی۔ اذاصح الحدیث ذھر مذھبی“ج۳ ص۱۰۲ مجموعہ الرسائل المنیریہ