کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 32
الیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْ أَمْرِهِمْ اور اس قسم کی دیگر آیات پر جن کا ذکر گزرچکا۔ لیکن ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑا ہے کہ جب کسی سے کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تو فوراً سوال ہوتا ہے کہ ” اس کا کون قائل ہے ( ائمہ میں سے) اور پھر اس کے مطابق کسی قائل کا علم نہ ہوسکنے کو وُہ اس کی مخالفت اور اس پر عمل نہ کرنے کے لیے بہانہ بنالیتا ہے اگر اسے اپنی ذات کی خیر خواہی مطلوب ہو تو وہ جان لے کہ یہ اس کا کہنا بالکل غلط اور باطل ہے۔ اس قسم کی جہالت کی بناء پر اس کا سنت کو ترک کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ اور اس بارے میں اس کا عذر ”عذرِ گناہ بدتر ازگناہ“ کی ذیل میں آتا ہے جبکہ اس کا اعتقاد ہے کہ سنت کی مخالفت پر اجماع منعقد ہوچکا ہے اور یہ مسلمانوں کی جماعت کے بارے میں سوء ظن ہے کہ وُہ انہیں سنت کی مخالفت پر اتفاق کی طرف منسوب کررہا ہے اور اس دعویٰ اجماع میں اس کا عذر اس سے بھی بدتر ہے۔ یہ اُس کی جہالت کا مظہر اور اس بات کی علامت ہے کہ اسے حدیث پر کسی عمل کرنے والے کا علم نہیں ہوسکا۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ وُہ اپنے جہل اور اور بے علمی کو سنتِ مطہرہ پر ترجیح دیتا ہے۔ [1] یہ اس شخص کا حال ہے جو اس ظن کے پیشِ نظر سنت کا مخالف ہے کہ اس کے خلاف اتفاق اور اجماع ہوچکا ہے۔ اس شخص کا کیا حال ہوگا جو یہ بھی جانتا ہے کہ علماء میں کئی ایک اس کے قائل ہیں اور اس کے مخالفین کے پاس مذکورہ بالا قواعد اور تقلید(جس کا ذکر چوتھی فصل میں آرہا ہے) کے سوا کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی وُہ حدیث کی مخالفت پر مُصر ہے۔ حدیث پر قیاس واصول کی تقدیم کا سبب میرے خیال میں مذکورہ قواعدکی حدیث وسنت پر تقدیم کی غلطی اور خطا کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے حدیث کو بجائے اس مقام ومرتبہ میں دیکھنے کے جس میں اسے اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے اس سے کم مرتبہ میں اتار لیا اور اس کے ثبوت میں شک وشبہ کا شکار ہوئے
[1] اعلام الموقعین ج ۳ ص ۴۶۴، ۴۶۵