کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 31
علامہ ابن قیم اعلام الموقعین میں ارشاد فرماتے ہیں:
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کسی کے قول عمل، رائے قیاس اور اس کے خلاف پر اتفاق ( جسے اکثر لوگ اجماع کا نام دیتے ہیں اور اسے حدیث صحیح پر مقدم سمجھتے ہیں) امام احمد اس شخص کو جھوٹا سمجھتے ہیں جو اس قسم کے اجماع کا قائل اور مدعی ہے اور اسے حدیثِ ثابت پر ترجیح دینے کو جائز نہیں سمجھتے اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ علیہ سے ان کی کتاب ”الرسالة الجدیدة“ میں ثابت ہے کہ جس چیز میں اختلاف کا علم نہ ہوسکےاسے اجماع نہیں کہا جاسکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت شدہ نصوص امام احمد اور دیگر ائمہ کے نزدیک اس سے بلند وبالا ہیں کہ ان پر اجماع کے واہمہ کو ترجیح دی جائے جس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ” یعنی اس سے اختلاف رکھنے والے کسی شخص کا علم نہ ہوسکے۔ اگر اسے جائزہ جان لیا جائے تو تمام نصوص معطل ہوجائیں گی جسے بھی کسی مسئلہ کے حکم میں کسی مخالف کا علم نہ ہوسکے وُہ اپنے عدم علم اور جہالت کو نصوص پر مقدم جان لے اور اس کا نام اجماع رکھ لے۔‘‘ [1]
امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:۔
”ایسے شخص کے خلاف اسلاف کرام کا غیظ وغضب بڑی شدت اختیار کرجاتا تھا جو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں رائے و قیاس، استحسان یا کسی کے قول کو پیش کرنے خواہ حدیث کے مقابلے میں قول کا قائل کوئی ہواور ایسا کرنے والے سے تعلق منقطع فرمادیتے اور جو اس کے لیے مثالیں بیان کرتا اس کے خلاف نکیر فرماتے، اور نبی علیہ السلام کے فرمانِ مبارک کو سمع وطاعت سے قبول کرنے اور اس کے لیے سراپائے تسلیم ورضا بننے کے علاوہ کسی چیز پر صادر نہ فرماتے، ان کے دل میں یہ بھی بات نہ کھٹکتی تھی کہ کسی کے عمل، قیاس اور اس حدیث کے مطابق قول کے سننےتک اس پر عمل کرنے سے توقف کیا جائے بلکہ وُ ہ اس آیت پر عمل پیرا تھے وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ
[1] اعلام ج۱ ص ۳۲/۳۳