کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 30
(د)تعارض کی صورت میں عام کو خاص پر مقدم کرنا یا قرآنِ کریم کے عموم کی خبر واحد سے تخصیص کو ناجائز سمجھنا [1]
(ھ) عمل اہلِ مدینہ کو حدیثِ صحیح پر مقدم رکھنا
سوئم: تقلید اور اسے دین ومذہب بنانا۔
فصل دوم
حدیث رسول پر قیاس کو مقدم کرناباطل ہے!
حدیث ِ صحیح کو قیاس یا مخالفت ِ اہل مدینہ وغیرہ مذکورہ بالاقواعد واصول کی بناء پر ترک کرنا، ان آیات واحادیث کے صریح خلاف ہے جن کا ابھی ذکر ہوا، جو تنازع و اختلاف کی صورت میں کتاب وسنت کی طرف مراجعت کے وجوب کے متقاضی ہیں۔ بلاشک مذکورۃ الصدر قواعد کی وجہ سے حدیث کے ترک پر جمیع اہلِ علم کا اتفاق نہیں ہے بلکہ جمہور علماء ان قواعد کے خلاف ہیں اور کتاب وسنت کی پیروی کرتے ہوئے وُہ حدیث ِ صحیح کو ان پر ترجیح دیتے ہیں۔ چونکہ حدیث پر عمل واجب ہے خواہ اس کے خلاف پر اتفاق کا شبہ ہی کیوں نہ ہو۔ یا اس پر عمل کرنے والے کسی امام کا علم نہ ہوسکے۔ امام شافعی فرماتے ہیں :”ویجب ان یقبلالخبر فی الوقت الذی یثبت فیه وان لم یمض عمل من الائمة بمثل الخبر۔ “[2]
یعنی جونہی حدیث کا ثبوت مل جائے اسے قبول کرنا واجب ہے خواہ اس کے مطابق قبل ازاں کسی امام نے عمل نہ کیا ہو۔
[1] شرح المنار ص ۲۸۹‘۲۹۴۔ ارشاد الفحول، ص ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۳، ۱۴۴
[2] الرسالۃ ص ۴۲۳۔ ۱۶۴