کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 27
تشکیک کا دور شروع ہوگیا۔ انہی قواعد واصول کی ایک اور قسم سامنے آئی جس سےآیت کا مفہوم الٹ ہوگیا اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے اصول وقواعد اور محاکمات ومقدمات کے لیے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مراجعت کریں۔ انہوں نے اس کا الٹ کیا کہ سنت کو اپنے وضع کرد اصول وقواعد پر پیش کرنا شروع کردیا۔ جو حدیث ان کے اصول کے مطابق ہوتی اسے قبول کرلیتے اور جومخالف ہوتی اسے ترک کردیتے۔ یہیں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے درمیان جو گہرا تعلق تھا وہ منقطع ہونا شروع ہوگیا، خصوصاً ان میں سے متاخرین کے ہاں اسی وجہ سے وُہ نبی علیہ السلام کے عقیدے، آپ کی سیرت، عبادت، صیام وقیام، حج واحکام اور فتاوی سے جاہل اور بے علم ہوگئے۔ جب ان سے مسائل دریافت کیے جاتے ہیں تو وُہ یا تو کسی ضعیف حدیث سے جواب دیتے ہیں یا بے اصل روایت کا ذکر کرتے ہیں، یا یہ کہتے ہیں کہ فلاں کے مذہب میں ایسے ہے جب انہیں توجہ دلائی جاتی ہےکہ یہ حدیث ِ صحیح کے خلاف ہے اور یاد دلایا جاتا ہے کہ حدیث میں اس طرح ہے تو وُہ حدیث کی طرف رجوع کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ایسے شبہات پیش کرتے ہیں جن کے ذکر کی یہ جگہ نہیں ہے۔ اس کا سبب صرف وُہ اصول وقواعد ہیں جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے عنقریب ان میں سے بعض کا ذکر کیا جائے گا۔ یہ وبا عام ہوچکی ہے اور اس نے تمام بلادِ اسلامیہ، مجلات علمیہ اور کتب دینیہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔ بہت کم لوگ اس سے بچ سکے ہیں۔ آپ بہت کم ایسے مفتیوں کو پائیں گے جو خالص کتاب وسنت کی روشنی میں سائل کا جواب دیتے ہیں بلکہ جمہور مفتیان ِ کرام مذہب اربعہ میں سے کسی مذہب پر اعتماد کرتے ہیں یا کسی مصلحت کے پیشِ نظر کسی دوسرے امام کا سہارا تلاش کرتے ہیں، سنت ان کے ہاں نسیاً منسیا ہوچکی ہے ہاں اگر ان کی کسی مصلحت کا تقاضا ہوتو پھر وہ سنت کی طرف لوٹتے ہیں۔