کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 26
ثم لم یؤمن بی الاکان من اھل النار۔ “( رواہ مسلم (ابن مسندہ وغیرھما[1]) یعنی قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جس نے میری دعوت کوسنا خواہ یہودی ہو یا نصرانی، پھر اس پر ایمان نہ لایا وہ اہل جہنم سے ہوگا۔ ۲۔ یہ اطاعت وفرمانبرداری تمام امورِ دین پر مشتمل ہے، اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ کوئی علمی عقیدہ ہو یا عملی حکم یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز۔ جیسے ہر صحابی پر واجب تھا کہ جب اُسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے یا کسی صحابی کے واسطے سے آپ کا کوئی حکم پہنچے تو اس پر ایمان لائے۔ اسی طرح تابعین پر بھی واجب تھا کہ وہ اس پر ایمان لائیں جب انہیں وُہ صحابہ سے ملے۔ جیسے صحابی کے لیے جائز تھا کہ وہ آپ کی عقیدہ کے بارے میں کسی حدیث کو یہ دلیل دے کر رد کردے کہ وہ خبر واحد ہونے کی وجہ سے رد کردے جب تک اس کے رواۃ ثقہ ہوں۔ اسی طرح یہ حکم تا قیامت جاری وساری ہے۔ تابعین اور ائمہ مجتہدین کے عہد میں اس پر عمل تھا جیسا کہ ذیل میں امام شافعی کی نص کا ذکر ہے۔ متاخرین کا سنت کو بجائے حکم ماننے کے اسے اپنے وضع کردہ اصولوں پر پیش کرنا پھر ائمہ ومجتہدین کے بعد ایسے اخلاف آئے جنہوں نے بعض علماء کلام کے بناءکردہ اصولوں‘ علماء اصول اور فقہاء مقلدین کے مزعومہ قواعد کے سبب سنتِ نبویہ کو ضائع اور بے کار قرار دے دیا۔ ان قواعد واصول کے نتیجہ میں حدیث مہمل اور بے معنی ہوگئی اور
[1] سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ص ۱۵۷