کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 25
کے علاوہ لائے ہیں (حلال اور حرام) ہیں۔ جیسے دُو چیزیں قرآن کی صورت میں لائے، اس لیے کہ آپ کا یہ فرمان عام ہے( أَلَا إنِّي أُوتِيت الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ) ۱۹۔ بے دینی اور گمراہی سے بچاؤ کی صرف یہی صورت ہے کہ قرآن وسنت پر اعتماد کیا جائے۔ یہ حکم تا قیامت جاری وساری ہے، کتاب وسنت کے درمیان تفریق جائز نہیں ہے۔ ہر دور میں عقائد واحکام میں سنت کا اتباع لازم ہے! برادرانِ کرام! کتاب وسنت کی مذکورۃ الصدر بیان کردہ نصوص وادلہ جیسے اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ مطلقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے ہیں اس کی اطاعت واجب ہے۔ جو شخص اپنے مقدمات وغیرہ کو سنت پر پیش کرنے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر راضی نہیں ہےوُہ مومن نہیں ہوسکتا۔ میں قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ایسے ہی یہ نصوص اپنے اطلاق وعموم کی بناء پر دواور اہم امور پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ ۱۔ اس حکم میں وُہ تمام لوگ داخل ہیں جن کوقیامت تک یہ دعوت پہنچے گی، جیسا کہ ان الفاظ میں اس کی تصریح موجود ہے فرمایا:”لَانُذ، رَکُمْ وَمَنْ بَلَغَ“ یعنی تاکہ میں تمہیں ڈراؤں اور جن کو ( یہ دعوت ) پہنچے۔ نیز فرمایا”وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا “ یعنی ہم نے تجھے تمام لوگوں کی طرف بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: وکان النبی یبعث الیٰ قومه خاصة وبعثت الی الناس کافة( متفق علیه) (پہلے) نبی صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیاہوں۔ نیز فرمایا:”والذی نفسی بیدہ لایسمع بی رجل من ھذہ الامة ولایھودی ولانصرانی