کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 24
کہ جب انہیں اپنے مقدمات وقضایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی سنتِ مطہرہ پر پیش کرنے کو کہا جاتا ہے تاکہ اس کے مطابق فیصلہ ہو تو وُہ اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس سے رُک جاتے ہیں۔
۱۲۔ منافقین کے برعکس مومنین کا وصف یہ ہے کہ جب انہیں اپنے مقدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنے کو کہا جاتا ہےتو وُہ بلاتاخیر اسے قبول کرلیتے ہیں اور قولاً وعملاً ہر طرح ”سمعنا واطعنا“کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور بجا لائے اور یہ سمع واطاعت ان کے لیے باعثِ فلاح وبہبود ہے اور وُہ اسی سےحصول جنت میں سرفراز ہوں گے۔
۱۳۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو احکام دیے ان سب کی بجاآوری ہم پر واجب ہے جیسے ان تمام امور سے باز رہنا ضروری ہے جن سے آپ نے ہمیں منع فرمایا ہے۔
۱۴۔ اگرہم رضاء الٰہی اور نجاتِ اخروی کے خواہاں ہیں تو ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اپنے جملہ امورِ دین میں اسوہ قدوہ تسلیم کرنا ہوگا۔
۱۵۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وُہ تمام گفتگو جو دین اور غیبی امور سے تعلق رکھتی ہے جنہیں عقل وتجربہ سے نہیں سمجھا جاسکتا، وُہ اللہ کی طرف سے وحی ہے جس میں باطل قطعاً آمیزش نہیں ہے۔
۱۶۔ سنتِ مطہرہ (احادیث مباکہ) قرآن ہی کی توضیح وتشریح ہے۔
۱۷۔ قرآن، حدیث سے مستغنی نہیں کرتا بلکہ حدیث بھی قرآن کی طرح واجب الاتباع ہے اور جو شخص (بزعمِ خویش) قرآن پر عمل پیرا ہوکر سنت سے بے پرواہی اختیار کرتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہےاور مذکورہ بالا آیات کا بھی مخالف ہے۔
۱۸۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کردہ، نیز وُہ تمام چیزیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن