کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 23
اس کی بجاآوری مطلقاً فرض ہوجاتی ہے خواہ اس حکم کا ذکر قرآن حکیم میں ہویا نہ ہو۔ اس کے لیے جیسے آپ کو قرآن دیا گیا ہے ویسے ہی حدیث بھی دی گئی ہے(أُوتِيت الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ) اور اللہ تعالیٰ نے اولی الامر کی اطاعت کو بالاصالہ اور مستقل طور پرو اجب قرار نہیں دیا۔ (یعنی اس کے لیے الگ اطیعوا کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا) بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ضمن میں رکھا گیا ہے علماء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ (تنازعہ اور اختلاف کی صورت میں)اللہ کی طرف لوٹانے کا مطلب قرآن ِ پاک کی طرف لوٹانا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا مطلب آپ کی زندگی میں آپ کی ذات کی طرف اور آپ کے بعد سنت کی طرف مراجعت کرنا ہے اور یہ ایمان کی شروط میں سے ہے۔ ۶۔ تنازعہ ہوجانے کی صورت میں اس سے گلوخاصی کے لیے سنّت کی طرف رجوع نہ کرنا شریعت کی نظر میں مسلمانوں کی کمزور ی، پسماندگی اور ان کی قوت وشوکت کے زوال کا بہت بڑ اسبب ہے۔ ۷۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر تنبیہ، اس لیے کہ دنیا وآخرت میں اس کا انجام بُرا ہے۔ ۸۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرنےو الے دُنیا میں فتنے اور آزمائش میں پڑنے اور آخرت میں عذابِ الیم کے مستحق ہیں۔ ۹۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنا اور آپ کے حکم کو تسلیم کرنا واجب ہے یہی پاکیزہ زندگی کا سبب ہے۔ دنیا اور عقبیٰ کی سعادت اسی سے وابستہ ہے۔ ۱۰۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری جنت میں داخلہ کی ضمانت اور عظیم کامرانی ہے اور آپ کی نافرمانی اور مقرر کردہ حد سے تجاوز جہنم میں داخلے کا باعث اور سواکن عذاب کا موجب ہے۔ ۱۱۔ منافقین جو بظاہر ایماندار اور دلوں میں کفر چُھپائے ہوئے ہیں کی یہ صفت ہے