کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 22
اہم ترین امور ہیں جنہیں ہم اجمالاً یوں بیان کرسکتے ہیں۔
۱۔ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مومن کو ان میں سے کسی بھی اختلاف کا اختیار نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی بھی ایسے ہی جرم ہے جیسے احکامِ خداوندی سے سرتابی اور یہ سراسر گمراہی ہے۔
۲۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے سامنے تقدم(پیش قدمی) یعنی اس کے احکام کے سامنے باتیں بنانا ناجائز ہے ویسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی آگے بڑھ کر باتیں بنانا ناجائز ہےویسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے بھی آگے بڑھ کر باتیں کرنا ( اجتہاد وقیاس) ناجائز اور ممنوع ہے اور سنتِ نبویہ کی مخالفت کے ناجائز ہونےسے کنایہ ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
لَا تَقُولُوا حَتَّى يَقُولَ، وَلَا تَأْمُرُوا حَتَّى يَأْمُرَ، وَلَا تُفْتُوا حَتَّى يُفْتِيَ، وَلَا تَقْطَعُوا أَمْرًا حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَحْكُمُ فِيهِ وَيَمْضِيهِ[1]
یعنی نبی علیہ السلام کے فرمان سے قبل تم کچھ نہ کہو، آپ کے حکم سے قبل کوئی حکم نہ دو، آپ کے فتوٰی دینے سےقبل کوئی فتویٰ جاری نہ کرو اور تم کوئی کام نہ کرو حتیٰ کہ آپ اس کا حکم فرمائیں یا کر گزریں۔
۳۔ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردانی صرف اور صرف کفار کی عادت ہے۔
۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہی دراصل اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزرا ہے۔
۵۔ دینی امور میں کسی اختلاف یا تنازعہ کی صورت میں صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مراجعت واجب ہے۔ حافظ ابن قیم فرماتےہیں:۔
”اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم فرمایا اور آپ کی اطاعت کے لیے فعل کا دوبارہ ذکر فرمایا(یعنی اطیعوا الرسول میں ) اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آپ کی اطاعت بالاصالہ اور مستقلاً واجب ہے بغیر اس کے کہ آپ کے ارشادات کو قرآنِ پاک پر پیش کیا جائے بلکہ آپ جب حکم فرمادیں تو
[1] اعلام الموقعین ج۱ ص۵۸