کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 88
تاثرات یہ ہیں کہ ان جوابات سے نہ کوئی اہلحدیث مطمئن ہوسکتا ہے نہ عامۃ المسلمین، بلکہ خود مجیب بھی شاید مطمئن نہ ہوں۔
ذہنی انتشار
”مسلک اعتدال“قریباً تیرہ صفحات پر پھیلاہوا ہے۔ پُورا مضمون پڑھ لینے کے بعد ایسامحسوس ہوتا ہے کہ مصنّف علّام جو کچھ لکھ رہے ہیں میں اس پر خود بھی مطمئن نہیں۔ پُورے مضمون میں ذہنی انتشار نمایاں ہے، اس مضمون کوتین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔
پہلاحصہ :۔ پہلےحصہ میں مولانا منکرین حدیث سےا تفاق فرماتے ہیں کہ ”احادیث ظنی توہیں اور ظنی چیز ثابت [1]شدہ نہیں ہوتی لیکن کسی چیز کا ثابت شدہ نہ ہونا یہ کب معنی رکھتا ہےکہ وہ ردّہی کردینے کے قابل ہو“( تفہیمات ۳۱۲)
[1] معلوم نہیں مولانا کس زبان میں گفتگو فرمارہے ہیں ؟ شرعی اصطلاح تویہی ہے کہ غیر ثابت شدہ مسائل کو ردکردیاجائے۔ پھر یہ ارشاد کہ ”ظنی ثابت شدہ نہیں ہوتی “اگر ظن بمعنی وہم ہے توارشاد دُرست ہے لیکن قرآن حکیم نے ظن کو وہم کے مترادف صرف اُس وقت فرمایا جب وہ حق کےمقابل ہو إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا قرآن میں ظن حقیقت ثابۃ کے معنی میں استعمال ہو ا:
وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعْجِزَ اللَّـهَ فِي الْأَرْضِ وَلَن نُّعْجِزَهُ هَرَبًا (جن)یہ قطعی حقیقت ہے کہ ہم زمین میں نہ خداتعالیٰ کوعاجز کرسکتےہیں اور نہ ہی اس کی بارگاہ سے بھاگ سکتےہیں۔
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ انہیں یقین ہے کہ وُہ اللہ سے ملیں گے۔
وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ اُسےیقین ہوتاہے کہ اب جدائی کا وقت ہے۔
أَلَا يَظُنُّ أُولَـٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ کیاانہیں یقین نہیں کہ وہ اٹھائے جائیں گے۔ ا ن کویقین ہوگیا کہ وہ اس پر قادرہیں۔
راغب نےظن کے متعلق ایک قاعدہ فرمایا ہے
الظن اسم لما یحصل عن امارۃ ومتی قویت ادت الی العلم ومتی ضعفت جدالم یتجاوزحدالتوھم ومتی قوی اوتصورتصورالقوی استعمل معه ان المشددہ وان المخففة۔ ا لخ
ظاہرہے ظن کو علی الاطلاق غیر ثابت شدہ کہنا قطعاً غلط ہے اور اس نظریہ پرجو نتائج مرتب ہوں گے وہ بھی غلط ہوں گے۔ اصل حکم ان امارت اور قرائن پرہوگاجن سے ظن حاصل ہوا۔
آئمہ حدیث کی اصطلاح میں ’ظن ‘علم ایک خاص مرتبہ کانام ہے۔ متواتر سے بدیہی علم حاصل ہوتاہے۔ آحادمیں جب قرائن صدق موجُود ہوں اور ان قرائن کےقوت وضعف کےپیش نظر جوعلم حاصل ہواُسےظن سے تعبیرکرتےہیں۔ آئمہ نے اس علم کےمتعلق فرمایاکہ یہ موجب عمل ہے پھر جن آئمہ نے تواترمیں عددکےعلاوہ اوصا ف رواۃ کوبھی ملحوظ ہے یاجن روایات کو ظنی بالقبول کا مقام حاصل ہوان سےعلم نظری کا حاصل ہونا بھی مسلّم ہے۔ گویا یہ ایساظن ہے جس سےعلم ِ نظری حاصل ہوسکتاہے۔ مولاناغور فرمائیں آیاغیر ثابت شدہ چیزموجب عمل ہوسکتی ہے یا اس سےعلم نظری حاصل ہوسکتاَ؟ عام اہل قرآن ظن کو وہم کےمرادف سمجھ کر اُسےغیرثابت شدہ تصوّرکرتے ہیں۔ مولانا نے ذہول یامسامحت سے اسی غلط استعمال کی بناء پر ظن کوغیرثابت شدہ فرمادیا اور جب اس کےنتائج پرنظر پڑی تو غیر ثابت شدہ قبول کرنےکافیصلہ کرلیاگیا۔ صلت علی الاسدوبلت عن النقد۔ ائمہ فن کی اصطلاح کے مطابق ظن علم کے اس مرتبہ کانام ہے جوہدایت سے کم ہو۔ علم نظری اور اس کےجملہ مراقب اس میں شامل ہیں۔ ان قرائن کی بناء پر محدثین نے قوۃ اور ضعف کے مراتب متعین فرمائے ہیں