کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 52
بھاگ دوڑ میں غلام کا کرتا پہلےہی کہیں شگاف آلود ہوگیا ہو۔ شاہد کی ہمدردیاں غلام کے ساتھ ہوں یا اتفاقاً معاملہ ہی اس نہج پر آگیاہو۔ اس وقت عدالت نے چونکہ اس احتمال اور امکان پر غورنہیں کیا۔ اس لیے یوسف علیہ السلام کی برأت مشکوک اور امرأۃ العزیز کاجُرم یامصر کی عدالت کافیصلہ نظر ثانی کے لیے پھر قانونی عدالت میں آناچاہیے۔ اس کے علاوہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طاقتور نوجوان پوری قوت سے بھاگ رہاہوتو ایک عورت اس تیزی سے دوڑ سکے۔ عورت کے بدن کی ساخت اور جسم کے مختلف اجزاء کی ہئیت کذائی کا تقاضاہے کہ وہ جو نمرود کو نہ پکڑ سکتی ہے نہ اس کے پیچھے اس طرح دوڑ سکتی ہے۔ مصر کی عدالت کافیصلہ محض جذباتی ہے۔ اس کی اپیل ہونی چاہیے۔ ممکن ہے ملکہ کا الزام غُلام پر درست ہو۔ اور روایت کی رُو سے ملکہ مصر بری نکلے۔
اس قسم کی اور بھی کئی تنقیحات امکان اور احتمال کی مشین کے ذریعے سے فن کار اور ماہر وکیل پیدا کرسکتے ہیں اور روایت کے عاشق درایت کی ریتی سےواقعات کا برادہ کرکے دے سکتےہیں۔
اس ساری وکالت پر وری کاجواب ایک سادہ دل اور دیانتدار انسان تویہی دے گا کہ جس ماحول میں جُرم ہوااس ماحول کی عدالت نے مناسب تحقیق کےبعد جوفیصلہ کیاوہی درست ہے۔
میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے شاہد کی ازروئے حدیث پوزیشن کوعمداً نظر انداز کیاہے اس لیے کہ ہمارے فریق مخالف اسے مانتے ہی نہیں اور یہاں تو وہ بظاہر قرآن کےخلاف ہے۔ قرآن نے توشاہد اسی کوکہاہے جس میں شہادت کی فقہی شروط پائی جائیں اور ان حضرات کی بارگاہ میں معجزہ اور کرامت کو کوئی اہمیت حاصل نہیں!
قرآن عزیز میں بھی ایسے واقعات ہیں جن پر بحث کی گنجائش ہےا ور آج کا قانونی مزاج اس پر مطمئن نہیں ہوسکتا۔ اس دور کے قانون پیشہ اور جج یقیناً محسوس کریں گے۔ کہ ان پر مرافعہ اور نظر ثانی کی کافی گنجائش ہے۔ امکان اور روایت کے ہتھیاروں سے قرآن