کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 43
حفاظت کرسکیں اور یہ لوگ سب عجمی اورموالی تھے اور یہ بادشاہ ان علماء کے حقوق کا پورا احترام کرتے تھے اور ان کی خدمات کی قدر کرتے تھے اور قطعی طور پر ان کوحقیر نہیں سمجھتے تھے کیونکہ وہ ان کے علوم اور دین کےمحافظ تھے۔ “
معلوم ہے کہ اموی خلفاء کے وقت شاہی درباروں میں عجمیوں کی وُہ اقتدار حاصل نہ تھا جو عباسی درباروں میں برامکہ کو حاصل ہوا لیکن ان کا دامن دین کی خدمات سے بالکل خالی تھا۔ قرآن وسنت اور دینی علوم توبڑی بات ہے برامکہ سے توعربی زبان کی بھی کوئی خدمت نہ ہوسکی۔
ہارون الرشید نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ اور ان کے درس کی سرپرستی کرنے کی کوشش کی لیکن امام نے اسے بے اعتنائی سے مسترد کردیا۔ روپیہ دینے کی کوشش تو پورے استغناء سے واپس فرمادیا۔
سازش کا آخر یہی مقصد ہوسکتاتھا کہ شاہی دربار تک رسائی ہو، مال ودولت اور حکومت میں حصہ ملے۔ اب دربار خوددرِ دولت پر حاضر ہوتاہے۔ اپنی ساری سربلندیاں چھوڑ کر پورے انکسار، انتہائی احترام سے خزانوں کے دروازے کھلتے ہیں، تھیلیاں باادب پیش ہوتی ہیں اور ”سازشی “ہیں کہ نظر اٹھاکر نہیں دیکھتے۔
بادشاہ عرض کرتے ہیں کہ بغداد تشریف لے چلئے آنکھیں فرش راہ ہوں گی۔ فارسی سازش کے سرغنہ یا فن حدیث کے سالار قافلہ فرماتےہیں۔ وَالْمَدِیْنَة خَیْرُ لَّھُمْ لَوْکَانُوْایَعْلَمُوْن۔
مطلب یہ کہ اس بڑے دربارسے علیحدگی میرے لیے ناممکن ہے۔
پھر سازشیوں کا یہ پورا گروہ مختلف عجمی ممالک سے ہزاروں میل سفر طے کرکےمدینہ منورہ پہنچ کر امام کی خدمت میں تحصیل علم کےلیے پیش ہوتا ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ ان کا شیخ عرب ہے اور یہ عجمی النسل لوگوں کی پوری سازش کا رازفاش کردے۔
عرب استاد کے عجمی شاگرد مدتوں استفادہ کرتے ہیں اور اُنہیں علوم کا درس دیا جاتا ہے۔ ساتھی ساتھی پر جرح کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں کے کُھلے بندوں