کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 40
طورپر تسلیم کیاگیاہے کہ ارباب ِحکُومت پورے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں اور عوام کے ووٹ نے انہیں اقتدار بخشا ہے۔ اس لیے یہ عوام کی حکُومت ہے۔ ایسی حکومت اگر برباد ہوجائے تویہ سمجھنا مشکل ہوتاہے کہ اقتدار پورے مُلک سے نکل کر اجنبی ہاتھوں میں چلاگیا۔ اس لیے ان حالات میں سازش کا امکان ہوسکتا ہے۔ آج سے تقریبا ایک صدی پہلے حُکومت نہ انتخابی تھی نہ جمہوری نمائندگی کی سند ان کو حاصل تھی۔ نہ وہ حکومتیں عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی تھیں بلکہ اس وقت کی حکومتیں شخصی ہوتی تھیں یازیادہ سے زیادہ کوئی قوم حاکم ہوجاتی باقی لوگ محکوم ہوتےتھے۔ اقتدار میں عوام کی جواب دہی قطعاً ملحوظ نہیں رکھی جاتی تھی نہ ہی حکومت کسی آئین کی پابند ہوتی تھی۔ بادشاہ کی رائے اور بادشاہ کاقلم پوراآئین ہوتاتھا یا وہ لوگ جو بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملاکر حکومت کے منظور نظر ہوجائیں۔ ایسی حکومتوں کے ساتھ ہمدردی ذاتی ضرورتوں کی وجہ سے ہوتی تھی یا بادشاہ کے ذاتی اخلاق اور کیرکٹر کی وجہ سے اگر کوئی انقلاب ہوجائے تو انقلاب سے ملک متاثر ہوتاتھالیکن اس کی وجہ بادشاہ یااس کےخاندان کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ یہ تاثر آنے جانیوالی حکومتوں کے ذاتی مقاصد کی وجہ سے ہوتا۔ فارس کی حکومت شخصی حکومت تھی۔ یزدجرد کی موت پر اس کاخاتمہ ہوگیا۔ یزدجرد کاخاندان یقیناً اس انقلاب میں پامال ہوا ہوگا لیکن تاریخ اس وقت کسی ایسی سازش کا پتہ نہیں دیتی جو اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کے طور پر کی گئی ہو۔ نوشیرواں کے بعد ویسے بھی فارس کی حکومت روبانحطاط تھی۔ ان کے کردار میں عدل وانصاف کی بجائے استبدادروزبروزبڑھ رہاتھا۔ عوام کوحکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور محبت نہیں تھی۔ پھر سازش کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ مذہباً فارسی حکومت آتش پرست تھی۔ اسلام نے توحید کے عقیدہ کی سادگی سے یُہودیت اور عیسائیت تک کومتاثر کیا۔ بت پرستی اس کے سامنے نہ ٹھہرسکی۔ آتش