کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 38
ظاہر ہے کہ ساری کائنات دُنیا بامید قائم کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ شارع نے بھی اکثراحکام کی بُنیاد طن پررکھی ہے۔ متمدن دنیا کے مختلف طبقات بھی ظن اور اُمید ہی کے سہارے پر چل رہے ہیں۔ آئمہ حدیث نے حدیث پر تنقید، تصحیح اور تصنیف کی بُنیاد کی عام دُنیا کے بالمقابل کہیں زیادہ یقینی امور پر رکھتی ہے ا س کے باوجود انہوں نے اس اصطلاح کےلیے ظن کا لفط پسند فرمایا جسے ہمارے منکرین حدیث نے شک وشبہ کے معنیٰ میں لے کراس کا انکار کردیا ہے۔ یہ غلطی زبان اور اس کے تصرفات سےلاعلمی کی بناء پر ہوئی۔ عربی زبان مین”مکر“ تدبیر کے معنیٰ میں استعمال ہوتاتھا۔ پھر بُری تدبیر کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا۔ جب اسے اُردو اور پنجابی میں استعمال کیاگیاتواس کا معنیٰ دھوکہ اور فریب کیاگیا۔ بیچارے نے پنڈت دیانندایسے کم علم نے قرآن پر اعتراض جڑدیا کہ ا س میں خُدا تعالیٰ کو مکّار کہا گیاہے۔
وکم من عائب قولاً صحیحا
وآفته من الفھم السقیم
شریعت نے ہر مناسب مرحلہ پر اس ظن کو قابل اعتماد واستناد سمجھاہے اور ا س پر احکام کی بُنیاد رکھی ہے۔
حافظ ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں :
والشارع لم یکلف العباد بمافی نفس الامر بل بماظھروبداوان کامخالفاً لنفس الامر (القواعد۳۵۶)
”شارع نےاپنے بندوں کویہ تکلیف نہیں دی کہ وُہ نفس الامر کی تلاش کریں بلکہ اس کی جوکچھ بظاہر موجودہوگو وہ نفس الامر اور واقع کےخلاف ہو۔ “
قرآن عزیز نے فرمایا:لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا( البقرہ)
”انسان کواس کی وسعت اور توفیق کے مطابق تکلیف دی ہے۔ “
جوچیز اس کے بس میں نہیں وہ اس کا مکلف نہیں جہاں تک شبہات