کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 37
ہی کی بناء پر کیے جاتے ہیں اور یہ خطرہ بدستور رہتاہے کہ شاید یہ عمل قابل قبول نہ ہوں اور قرآن عزیز میں بھی اس کی شہادت مُوجود ہے“
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ (المومنون)
”وہ لوگ خرچ کرتے ہیں اور اُن کے دل ڈرتے ہیں۔ “
اسی طرح دُنیا دار جس قدر کاروبار کرتے ہیں وُہ حسن ظن ہی کی بناء پر کرتے ہیں ہمیں یہ حسنِ ظن ہےکہ اگر یہ اسباب میسر آجائیں توغالباً یہ مُعاملات صحیح اور درست ہوجائیں گے۔ لوگ تجارتی سفراسی حسنِ ظن کی بناء پر کرتے کہ وُہ صحیح سلامت بھی رہیں گے اور اُن کو فائدہ بھی ہوگا۔ اسی طرح کاریگر گھروں سے نکلتےہیں کہ انہیں کام بھی ملے گا اور فائدہ بھی ہوگا۔ کسان کھیتی باڑی اس حسن ظن کی بناء پر کرتے ہیں کہ اُنہیں اس سے آمدنی ہوگی۔ اُونٹ خچروں کے مالک بھی حسن ظن ہی کی بناء پر نکلتےہیں کہ اُنہیں اُجرت میسّر آجائے گی۔
بادشاہ اسی خیال سے لشکر کشی کرتے ہیں، قلعے تعمیر کرتے ہیں کہ اُنہیں فتح حاصل ہوگی اور فوجیں بھی اپنا بچاؤ اور اسلحہ کا استعمال اسی لیے کرتی ہیں کہ اُنہیں غلبہ حاصل ہوگا اور سفارشیں بھی اسی لیے کی جاتی ہیں کہ شاید انہیں قبول کرلیاجائے گا۔
علماء بھی اسی ظن سے علوم پڑھتے ہیں کہ اُنہیں امتیازی مقام حاصل ہوگا۔ اور مناظر اور مجتہد ادلّہ میں زیادہ تر اعتماد ظنیات پر ہی کرتے ہیں اور کامیابی کی اُمید رکھتے ہیں۔ بیمار بھی علاج میں اسی لیے کوشش کرتے ہیں کہ شاید اُنہیں شفاء حاصل ہوگی اور اکثر اوقات یہ ظن صحیح اور دُرست ثابت ہوتاہے غلط اور جُھوٹ نہیں ہوتا، ان مصالح کو معطل کرنا، اس لیےکہ ان میں کبھی کبھی ناکامی بھی ہو جاتی ہے اور نادر طور پر یہ ظن دُرست ثابت نہیں ہوتے محض جہالت ا ور نادانی ہے۔ “